نروال جڑواں دھماکے کیس 11روزہ تفتیش کے بعد حل سرکاری ٹیچر کلیدی ملزم قرار، پرفیوم آئی ای ڈی برآمد کرنیکادعویٰ

 شاستری نگر اور کٹرہ دھماکے بھی ملزم کی کارستانی ،مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیناتھا:پولیس سربراہ

سید امجد شاہ

جموں//جموں و کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے 21جنوری کو نروال جڑواں دھماکہ کیس حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں لشکرطیبہ سے وابستہ ایک سرکاری ٹیچر کو گرفتار کرکے اس کی تحویل سے اپنی نوعیت کی پہلی پرفیوم آئی ای ڈی بر آمد کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں پولیس کی گیارہ دنوں کی انتھک محنت کے بعد ریاسی ضلع کے گلاب گڑھ علاقہ سے تعلق رکھنے والے محمد عارف نامی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جو پیشہ سے ایک سرکاری استاد ہے۔
پولیس تفتیش
جموں میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نیپولیس کی تفتیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’20 جنوری 2023 کی رات کو بارودی دھماکوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو اگلے ہی دن (21 جنوری 2023) کو نروال علاقے کے ٹرانسپورٹ نگر میں ایک ایک کر کے 20منٹ کے وقفہ میںپھٹ گئے‘‘۔اُن کاکہناتھا’’پہلے دھماکے کے بعد دوسرے طاقتور آئی ای ڈی دھماکے کے لیے 20 منٹ کا وقت مقرر کیا گیا تھا جس کا مقصد پولیس فورس اور سیکورٹی فورسز کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا، جو ٹرانسپورٹ نگر میں پہلے آئی ای ڈی دھماکے کے فوراً بعد وہاں پہنچ گئے تھے تاہم پولیس وسیکورٹی فورسز نے احتیاط سے ایس او پیز پر عمل کیا تاکہ کسی بھی قسم کے نقصان سے بچا جا سکے اور پورے علاقے کو صاف کیا۔ دوسری صورت میں نقصان زیادہ ہوسکتا تھا کیونکہ دوسرا آئی ای ڈی دھماکے میں بڑا تھا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’’پہلے دھماکے کا مقصد دکانداروں اورمزدوروںکو زخمی کرنا تھا، جس میں9 افراد زخمی ہوئے۔ پہلا آئی ای ڈی دھماکہ دوسرے آئی ای ڈی دھماکے کے مقابلے میں چھوٹا تھا‘‘۔ڈی جی پی کا کہناتھا کہ نروال دھماکوں میں پہلی آئی ای ڈی تقریباً 750 گرام اور دوسری آئی ای ڈی (اسٹیل ٹفن) ایک کلو سے زیادہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں آئی ای ڈیز جو نروال میں استعمال کی گئی تھیں اور غیر استعمال شدہ پرفیوم آئی ای ڈی گرفتار شدہ سرکاری ٹیچر نے ڈرون کے ذریعے حاصل کی تھیں۔پولیس سربراہ نے کہا کہ دھماکوںکے فوراًبعد تفتیش شروع کی گئی اور اے ڈی جی پی جموں مکیش سنگھ، ڈی آئی جی جموں شکتی پاٹھک اور ایس ایس پی جموں چندن کوہلی کی نگرانی میں کیس کی تحقیقات دن رات جاری رکھی گئی اور تحقیقات کے دوران تفتیشی پولیس ٹیم نے ایک سرکاری ٹیچر کو گرفتار کیا جس کا نام محمد عارف ہے اور جو ریاسی ضلع کے گلاب گڑھ علاقہ سے رکھتا ہے۔
ملزم انتہائی شاطر
انہوں نے کہا کہ عارف شاطرانہ سوچ رکھتا ہے اور اْس کی گرفتاری سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے بڑی کامیابی ہے۔پولیس سربراہ نے کہاکہ عارف نے آئی ای ڈی نصب کرنے کے بعد ثبوت کو مٹانے کی خاطر اپنے سبھی کپڑے ، جوتے اور یہاں تک موبائیل فون کو بھی نذر آتش کیاجو اُس نے آئی ای ڈی نصب کرتے وقت پہنے ہوئے تھے تاہم جموں وکشمیر پولیس نے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر چھوٹی چھوٹی کڑیاں جوڑ کرشاطر ملی ٹینٹ کو گرفتار کرنے کے علاوہ دھماکے کے دو دیگر معاملات کو بھی حل کیا۔
عارف کون ہے؟
ڈی جی پی نے کہا کہ گرفتارعارف کو 2010 میں رہبر تعلیم کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور پھر اسے 2016 میں سرکاری استاد کے طور پر مستقل کیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اسے ملی ٹینسی میں ملوث ہونے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا۔انکاکہناتھا’’”اس کی پوچھ گچھ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ پچھلے تین برسوںسے سرحد پار لشکر طیبہ کے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں تھا۔اس کے ماموں کراچی (پاکستان) میں کافی عرصے سے آباد ہیں اور اپنے ماموں کے ذریعے وہ لشکر طیبہ کے ہینڈلر قاسم (ضلع ریاسی کا رہائشی) کے ساتھ رابطے میں آیا۔ قاسم بھی پاکستان گیا تھا اور وہیں آباد ہوا تھا اور اب وہ سرحد کے اس طرف جموں خطہ میں ملی ٹینسی کارروائیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پاکستان میںملی ٹینٹ گروپ میں شامل ہو گیا ہے ‘‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ قاسم عارف کے ساتھ 2019 میں رابطے میں آیا تھا۔
دیگر دھماکوں میں ملوث تھا
دیگر دھماکوں میں عارف کے ملوث ہونے کے بارے میں پولیس تفتیش کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’ایک آئی ای ڈی (دھماکہ) شاستری نگر میں 22 فروری کو ہوا تھا۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ اس میں کون ملوث تھالیکن نروال دھماکہ کیس کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ شاستری نگر آئی ای ڈی دھماکے میں بھی عارف ملوث تھا۔کٹرہ مسافر بس دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم اس کیس پر کام کر رہے تھے لیکن ہم اس شخص کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے جس نے مسافر بس میں آئی ای ڈی نصب کی تھی۔ تاہم عارف نے اپنی پوچھ گچھ میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے دو آئی ای ڈیز لگائے تھے۔ اس نے مسافر بس کی سیٹ نمبر 3 پر بس کے پیٹرول ٹینک کے بالکل اوپر دو آئی ای ڈیز (ایک بیگ میں رکھے ہوئے تھے) لگائے تھے تاکہ دھماکے کے بعد بس میں آگ لگ جائے اورمسافروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے”۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس نے مبینہ طور پر ٹرانسپورٹ نگر (نروال)، کٹرہ اور شاستری نگر میں آئی ای ڈی لگانے کے لیے نقد رقم حاصل کی تھی۔جموں میں دو دیگر آئی ای ڈی دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈی جی پی نے کہا ’’شاستری نگر میں آئی ای ڈی ٹائمر ڈیوائس کے ساتھ نصب کیا گیا تھا اور کٹرہ آئی ای ڈی چپچپا بم کی شکل میں تھے جوکم وبیش کٹھوعہ میں پولیس کے ذریعہ برآمد کیے گئے 4.5۔ کلوگرام وزنی بم (چپچپا) جیسے تھے‘‘۔
جموں خطہ میں دہشت کی بحالی کا مقصد
ڈی جی نے کہا ’’پاکستان سرحد پارسے جموںوکشمیر اور ملک میں دہشت پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔ اسی طرح ان کی بزدلانہ کارروائیاں جموں و کشمیر میں طویل عرصے سے ہو رہی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’بے گناہ ملی ٹینسی کی کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملی ٹینٹ خطوں،مذاہب اور برادریوں میں فرقہ وارانہ بھائی چارے ،ہم آہنگی اور امن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔دلباغ سنگھ کا مزید کہناتھا’’ جموں خطے میں ملی ٹینسی سے متعلق کارروائیوں کا مقصد جموں خطے میں مردہ ملیٹینسی کو زندہ کرنا ہے اور ان کارروائیوں سے وہ مکمل طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم پیدا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔انکامزید کہناتھا’’ جموں خطہ میں کوئی منظم ملی ٹینٹ گروپ سرگرم نہیں ہے لیکن ملی ٹینٹوں کے کچھ ماڈیولز سرگرم ہیں اور انہیں جموں و کشمیر پولیس نے خطے کے مختلف اضلاع میں بے نقاب کیا ہے‘‘۔ڈانگری راجوری میں شہری ہلاکتوں میں ملوث ملی ٹینٹوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پولیس چیف نے بتایا کہ تحقیقات جاری ہے اور میڈیا کو اس کے بارے میں بھی بہت جلد جانکاری فراہم کی جائے گی۔
پرفیو م آئی ڈی کیا ہے؟
غیر استعمال شدہ پرفیوم آئی ای ڈی کی برآمدگی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشاف میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے ملزم سرکاری ٹیچر کے انکشاف کے بعد آئی ای ڈی برآمد کر لی ہے۔اس قسم کی آئی ای ڈی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’آئی ای ڈی ایک پرفیوم کی بوتل کے اندر لگائی گئی جو اس وقت متحرک ہوجائے گی جب پرفیوم کی بوتل رکھنے والاشخص غلطی سے اس کا بٹن دبائے۔دھماکے کی صورت میں متاثرہ شخص موقع پر ہی مر جائے گا‘‘۔
۔12 دہشت گرد گروہوں پر پابندی عائد
جموں و کشمیر پولیس کے ڈی جی پی نے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں کم از کم 12 ملی ٹینٹ گروپوں پر پابندی عائد کردی گئی اور 22 لوگوں کو ملی ٹینسی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر دو برسوںمیں دہشت گرد کے طور پر نامزدکیاگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عمل رکا نہیں ہے لیکن یہ اب بھی جاری ہے۔

 

مشتبہ نقل و حرکت کے بعد منکوٹ میں تلاشی آپریش شروع
مینڈھر /جاوید اقبال /سرحدی ضلع پونچھ کی منکوٹ تحصیل میں گزشتہ دنوں ہوئی مشکوک نقل و حر کت کے بعد فوج و دیگر سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایک بڑا تلاشی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے ۔مقامی ذرائع کے مطابق مینڈھر سب ڈویژن کے رام کنڈ اور ملحقہ دیہاتوں میں سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر محاصرہ اور تلاشی آپریشن شروع کیا ہے۔عہدیداروں نے بتایا کہ مینڈھر کے رام کنڈ گاؤںسے فورسز کو مشتبہ نقل و حرکت سے متعلق اطلاع ملی تھی جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے جمعرات کو علی الصبح علاقے میں آپریشن شروع کیا۔عہدیداروں نے بتایا کہ اس آپریشن کو بعد میں رام کنڈ کے کچھ ملحقہ دیہاتوں بشمول چھونگا، منکوٹ تک بڑھا دیا گیا۔فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران بھی موقع پر پہنچ گئے اور آپریشن کی نگرانی کی جو آخری اطلاعات موصول ہونے تک جاری تھاتاہم حکام نے کہا کہ علاقے میں مشتبہ نقل و حرکت کی اطلاع سے متعلق کسی بڑی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔