نئی تعلیمی پالیسی | دستاویز اچھی ،عمل ہو تو بات بنے

قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے تاہم وقت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم سے بھی خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں، اسی لئے ارباب نظر حسب ضرورت نصاب تعلیم کے بدلنے کی وکالت کرتے ہیں اور دنیا میں ہر جگہ حسب ضرورت نصاب تعلیم میں جزوی یا کلی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ہمارے ملک میں بھی بدلتے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی قومی تعلیمی پالیسی2020کے نفاز کا عمل جاری ہے ۔نئی تعلیمی پالیسی کے ابتدائیہ میں ملک کی تعلیمی پالیسی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے سب کیلئے معیاری تعلیم، تحقیق اور تعلیم کے میدان میں اختراع پر خاص توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ملک کو نالج سپر پاوربنانا ہے تاکہ افرادی قوت کی قلت کا خاتمہ ہو۔ ملک کی دیگر ریاستوں او ر یونین ٹریٹریز کی طرح جموںوکشمیر میں بھی قومی تعلیمی پالیسی 2020بتدریج نافذ ہورہی ہے اور پالیسی کے نکات کو مرحلہ وار بنیادوں پر نافذ کرکے تعلیمی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس ضمن میں نہ صرف تعلیمی کلینڈر تبدیل کیاگیا ہے بلکہ سمسٹر سسٹم بھی تبدیل کیاگیا ۔نئی پالیسی کے تحت مفت تعلیم پر زور دیاگیا ہے اور نجی و سرکاری سکولوں میں مفت داخلے کرنے ہیں جبکہ تعلیم کو تجارت بنانے سے گریز کرناہے تاہم جموںوکشمیر میں تعلیم مکمل طور پر کمر شیلائز ہوچکی ہے اور فیس فیکزیشن کمیٹی کے احکامات کو پائوں تلے روندھتے ہوئے داخلہ ،ٹیوشن اور نت نئے فیسوں کے نام پر طلاب اور ان کے والدین کو لوٹنے میں نجی سکول کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے ہیں ۔ پرائمری سطح پرمڈ ڈے میل اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کے نفاذ کے باوجود آج بھی پرائمری سکولوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ پانچ فیصد سے زیادہ ہے۔ وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک لاکھ کے قریب سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد پورے سکول کو سنبھالتا ہے۔ اس طرح کی تحقیقات اور جائزے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر سکولوں میں طلبہ اپنے منظور شدہ نصاب کی درسیات پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی حال اعلی تعلیم کاہے کہ پرائیوٹ انجینئرنگ کالج کے ستر سے اسی فیصد طلبہ اپنے معیار کی نوکری کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے سکولی نظام میں اسباق کو رٹ کر امتحان پاس کرنے اور یادداشت کی صلاحیت کی بنیاد پر ننانوے فیصد نمبر لانے کو طالب علم کی علمی و ذہنی استعداد کا پیمانہ مان لیا گیا ہے جسکی وجہ سے ہمارا پورا تعلیمی نظام ایک پتلی پگڈنڈی پر چلنے جیسا ہے جس سے ذرا سی بھی رو گردانی طالب علم کو منزل سے بھٹکا دے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر تعلیم کے نظام الاوقات کو 2+10 کی جگہ پر 4+3+3+5 کردینا اچھا ہے تاہم عملی طور کام کئے بغیرایسے نظام سے معیار تعلیم میں بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ اس پالیسی میں پری پرائمری کے طور پر شروع کے تین سال کو crèche کے طرز پری سکولنگ کا ایک نیا نظام متعارف کروا یاجارہا ہے جو آنگن واڑی ملازمین کے زیر نگرانی ہو گا۔ اس نظام کے تحت طلبہ سے امتحان کے سالانہ بوجھ کوکم کیا گیا ہے ، مضامین کے انتخاب میں طلبہ کو آزادی اور وسعت دی گئی ہے۔سکول کی سطح تک آرٹس، سائنس اور کا مرس کے مضامین کی درجہ بندی ختم کرنے کی بات کی گئی ہے اور پیشہ ورانہ مضامین یعنی ووکیشنل کورسز کو نصاب کا حصہ بنایا جانا ہے۔ یہ سب باتیں سن کر بہت اچھا لگتا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ نصاب کو شروع کرنے پر سکولوں میں نئے اساتذہ اور نئی تعلیمی سہولیات کے لئے اضافی مالی بوجھ کس کے اوپر پڑیگااور اس کا انتظام کون کرے گا؟۔ تین سال سے لیکر پانچ سال کی عمر تک کی پری سکولنگ کو امیر خاندانوں اور نجی تعلیمی اداروں کی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن دیہی علاقوں میں آنگن واڑی سکیم کے تحت پری سکولنگ کا بہت اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ تین سال سے چھ سال کی عمر بچے کی ذہنی افزائش کے لئے نہایت اہم ہوتی ہے اور ہمارے ملک کے آنگن واڑی کارکنان کی صلاحیت اور تربیت اس سطح کی قطعی نہیں ہوتی کہ وہ اس عمر کے بچوں کی ذہنی بالیدگی میں کوئی موثر کردار ادا کر سکیں۔تعلیم اور نصاب کے ڈھانچہ میں بدلاؤ کے ساتھ 2030 تک سکولی سطح پر طلبہ کے سو فیصد اندراج کو یقینی بنانے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔ پرائمری سطح پر بالکل مفت تعلیم اور مفت کھانے کی سکیم کے تحت اب تک 95 فیصد اندراج ہی ممکن ہوسکا ہے اور ثانوی سطح پر طلبہ کے اندراج کا تناسب ابھی صرف 74 فیصد تک پہنچ سکا ہے۔ تما م تر سہولیات کے باوجود اگر سرکاری اسکولوں میں داخلے کے لئے طلبہ کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پائی تو نجی سکولوں کی مدد سے یہ نشانہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ نجی سکولوں کے اخراجات پورے کرنے کی مالی استطاعت ملک کی تیس فیصد آبادی کے پاس تو بالکل ہی نہیں ہے، ایسے میں تعلیمی شعبے میں نجکاری کو فروغ دیکر کیسے صد فیصد اندراج کا نشانہ پورا ہوسکے، یہ عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس وقت ملک میں اعلی تعلیم میں اندراج کی سطح صرف 26 فیصد ہے اور 2035 یا 2040 تک اعلی تعلیم میں طلبہ کا اندراج پچاس فیصد تک پہنچنا فی الوقت سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز کی موجودہ سہولیات میں ممکن نہیں جب تک کہ سرکاری سطح پر اعلی تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی تبدیلی کرکے اسکے تعلیمی معیار کو اونچا کرنے کے لئے کوئی قدم سرکار نہیں اٹھاتی ۔تعلیمی دورانیہ میں ڈگری اور ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ دینے کی بات یوں تو سننے میں اچھی لگتی ہے لیکن کیاملک کے موجودہ منظرنامہ میں اس کی کوئی افادیت ہے؟ جب پوری ڈگری لیکر بھی نوجوان روزگار کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں ایسے میں بیچ میں ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ دینے سے کیا فائدہ ہوگا یہ سمجھ سے پرے ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کی دستاویز کی افادیت سے انکار نہیں اور اس کو یقینی طور پر جدید تقاضوںکے عین مطابق تیار کیاگیا ہے تاہم اس سے ملک میں ایک اور تعلیمی انقلاب جبھی آسکتا ہے جب ہمارا تعلیمی نظام درست ہوگا اورتعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات ہونگے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی بھی نئی یا پرانی تعلیمی پالیسی ملک میں تعلیم کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔