میرا قصبہ میری شان کادوسرا مرحلہ ! | نمائشی نہیں ،عملی اقدامات سے عوام کا بھلا ممکن

دیہات کی طرح جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے قصبہ جات وشہروںمیں رہائش پذیر عوام کی دہلیز تک حکومت کو پہنچانے اور عوام و سرکار کے درمیان موجود خلیج پاٹنے کی غرض سے میرا قصبہ میری شان پروگرام کا دوسرا مرحلہ کل6دسمبر کو اختتام پذیر ہوگیا۔آخری روز لیفٹیننٹ گورنر منوج سِنہا نے گلشن گرائونڈجموں میں ایک پروگرام میں شرکت کی۔اس موقعہ پر لیفٹیننٹ گورنر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی رسائی پروگرام سے ہم لوگوں کو شہری تبدیلی کے مرکز میں لارہے ہیں اور شہروں کی ترقی کو آگے بڑھانے ، مقامی گورننس کو بااختیار بنانے اور دہلیز پر خدمات کی بغیر کسی رکاوٹ کے فراہمی کو یقینی بنارہے ہی۔ انہوں نے کہا کہ ’ مائی ٹائون مائی پرائیڈ‘ایونٹ کے دوران سینئر افسران قصبوں کا دورہ کرکے براہِ راست رابطہ کو فعا ل بنا رہے ہیں اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے والا نظام تشکیل دے رہے ہیں۔اُنہو ں نے کہا کہ مینٹرنگ افسران یا پربھاریوںکو شہری ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لئے منتخب عوامی نمائندوں ، مقامی وارڈ ممبران کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ہزاروں سرکاری ملازمین و سینئر ترین بیرو کریٹس و افسران کی جانب سے چلائی جانے والی اس وقاری مہم کے دوران جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے ہر قصبہ تک ویزیٹنگ افسران پہنچے اور عوام و بلدیاتی نمائندوں سے نہ صرف فیڈ بیک حاصل کیا بلکہ ان کے مسائل جانے اورقصبہ کی سطح پر ترقیاتی عمل کا برسر موقعہ جائزہ بھی لیاگیا۔پہلے ایک ہفتہ تک جن ابھیان اور اس کے بعد دو دن تک دوروں پر مشتمل چلنے والے اس پروگرام کے دوران نوجوانوںکی صلاحیت سازی اور خود روزگاری پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ نشہ مکت ،روزگار یُکت جموںوکشمیر کو یقینی بنانے پر بھی کام ہوا بلکہ شفاف اور جوابدہ حکمرانی کیلئے آن لائن خدمات لوگوں کے گھروں تک پہنچائی گئیں اور انہیں اس دوران ان خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی تربیت بھی فراہم کی گئی ۔علاوہ ازیں قصبہ کے لوگوںکوگھروں کی دہلیز پر ہی لینڈ پاس بک ،صحت کارڈ اور دیگر اسناد فراہم کی گئیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مہم کے دوران کئی جگہوں پر عوام نے پہلے مرحلہ میں اجاگر کئے گئے مسائل حل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیاتاہم یہ بھی سچ ہے کہ پہلے مرحلہ سے اب تک جموںوکشمیر کے تمام قصبوں و شہروں میںلوگوں کے ہزاروں کام ہوگئے اور پہلی بار لوگوںکو یہ تاثر ملا کہ حکمرانی ان کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جموںوکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار عوام کو سرکار سے نہیں بلکہ سرکار کو عوام سے رجوع کرنا پڑا اور سینئر ترین بیروکریٹس سے لیکر ہزاروں افسران قصبوںوشہروں میں 2 دن تک عوام کے بیچ ہی قیام پذیر رہے جس سے عوام کو پہلی دفعہ لگا کہ وہ سسٹم سے الگ نہیں ہیںبلکہ سسٹم کا حصہ ہیں اور سسٹم کوئی آسمانی مخلوق نہیںبلکہ ا ن کے خدمت گزار ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں بلدیاتی اداروں کے قیام اور آئین کی 74ویں ترمیم سے قبل ترقیاتی منصوبے یا تو ضلع ترقیاتی کونسلوںکی میٹنگوںمیں بنتے تھے یا پھر انہیں سیکریٹریٹ میں بیٹھے بابو فائنل کرتے تھے اور اس عمل میں مقامی ضروریات کا نہ ہی خیال رکھاجاتا تھا اورنہ ہی مقامی جغرافیہ اور زمینی صورتحال کو خاطر میں لایاجاتا تھا لیکن اب وہ سلسلہ نہیں رہا۔آج قصبوں و شہروں کے منصوبے قصبوں میں ہی بنتے ہیں۔اعلیٰ ترین سرکاری افسران لوگوںکے بیچ جاکر ان کے گلے شکوے سنتے ہیں اور ان کی ضروریات کے مطابق ہی قصبوںوشہروںکے منصوبے ترتیب دئے جاتے ہیں۔گزشتہ پروگرام کے دوران عام شکایت یہ رہی کہ ایسے پروگرام میں ویزیٹنگ آفیسران بدلتے ہیںاور یوں عوام کی داد رسی نہیں ہوتی ۔اسی لئے اس بار سرکار نے اُس کا بھی توڑ نکالا اور اس بار جن افسران کو پروگرام کے دوران قصبوں و شہروںمیں بھیجا گیا،اُنہیں قصبہ پربھاری یا نگراںقصبہ کے طور نامزد کیاگیاجو سال بھر کیلئے متعلقہ قصبہ کی عوام اور سرکار کے درمیان رابطہ کار ہوگا اور یہ اُسی آفیسر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ عوامی شکایات اور خدشات کاازالہ کرے ۔یعنی بہ الفاظ دیگر جو مسائل اس پروگرام کے دورا ن اجاگر کئے گئے ،اُنہیں متعلقہ محکموں سے حل کروانا اُسی آفیسر کی ذمہ داری ہوگی اور میرا قصبہ میری شان پروگرا کے اگلے مرحلہ پر مذکورہ آفیسر کو اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جواب بھی دیناپڑے گا۔ یہاں عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے پروگراموںکے دوران اٹھائے گئے مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہیں اور سب کچھ منتخب بلدیاتی نمائندوں یا سرکاری کارندوںپر ہی نہ چھوڑیں بلکہ سرکاری مشینری کے ساتھ رابطہ میں رہنے کی کوشش کریں۔اب چونکہ ویزیٹنگ آفیسر کو نگراں قصبہ نامزد کیاگیا اور اُنہیں ذمہ داری لگا ئی گئی ہے کہ وہ سال بھر اُس قصبہ کی عوام کے ساتھ رابطے میں رہے تو عوام سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے قصبہ کے نگراں آفیسر کو بھاگنے کا موقعہ فراہم نہ کریں بلکہ اُن کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہ کر اُنہیں اپنے مسائل اور سرکار کی جانب ان کے ازالہ کیلئے کئے گئے وعدے یاد دلاتے رہیں ۔اس سے ایک تو سرکاری مشینری کو بھی لگے گا کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور وہ ان کے مالک نہیںبلکہ خدمتگار ہیںاور دوسراان کے کام بھی ہونگے ۔عوام جتنا زیادہ سرکاری مشینری کو جوابدہ بنانے کے عمل میں شامل ہوجائے گی ،اُتنا ہی یہ پروگرام کامیاب رہے گا اور جتنا عوام سرکاری مشینری سے دوری بنائے رکھی گے،اُتنا ہی ان کیلئے نقصان دہ ہوگا ۔