مولانا شکیل احمد۔اِک چراغ تھا نہ رہا خراج ِ عقیدت

سہیل سالمؔ
سرسید رقم طراز ہے کہ ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے‘‘۔اس دور کا شاید یہ المیہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات نے زندگی کے گونا گوںمسائل اور مصروفیات میں مبتلا انساں کو اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ یادوں کے چراغ جلا کر اپنے حال کوروشن کرے اور اپنے ان مخلص بزرگوں اور عالموں کو خراج عقیدت پیش کرے، جنھوں نے علم و حدیث کی شادابی کو برقرار رکھا ، تہذیب وثقافت اورسماجی بہبودی کے لیے اپنی زندگیاںوقف کردی۔ایسی ہی ایک فرشتہ صفت شخصیت مولانا شکیل احمد باغوان کی ہے۔انھوں نے پوری زندگی دینیات کے فروغ میں لگا دی۔ایسی شخصیت پر بطور خراج عقیدت کچھ لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
نورانی چہرہ، رنگ سنہرا، دراز قد ،خوبصورت خا ل وخد،سر پر چھوٹے چھوٹے بال ،عالم بے مثال ،بڑے بڑے کان ،فہم ادراک کا دبستان ۔موٹی ناک ،زبان بے باک ،لبوں پر تبسم ،حسین وادی میں گم صم ۔یہ ہیں شہر خاص کا عالم دین ،طبابت کا امین،قرآن و حدیث کا روشن ستارہ ،بلاغت کا گہوارہ،انسانیت کا ترجمان ،اخوت کی شان، ہر اک زوایے سے حسین و جمیل ، عالی جناب شکیل ۔ مولانا شکیل احمد َ ؔکا اصلی نام شکیل احمد باغوان ہے۔ان کا تعلق سرینگر کے رعناواری علاقے سے ہیں ۔15جون1967 کو کوچہ ندان رعناواری میں تولد ہوئے۔ ابتدائے تعلیم اپنے ہی علاقے میں حاصل کی۔1980 میں گورنمنٹ بوئز ہائی اسکول رعناوای سے نویںجماعت پاس کرنے کے بعدگھر کی اقتصادی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کو مزید آگے جارے نہ رکھ سکے اور قالین خانے میں بحیثیت مزدور کام کرنے لگے ۔بچپن میں اپنے چچا کی صحبت میں رہ کر شکیل صاحب نے عملی فیض حاصل کیا۔پھر1988 میں کئی لوگوں نے مل کر اپنے علاقے ہی میں مسجد شریف کی بنیاد رکھ لی گئی، جس میں شکیل صاحب بھی سرفہرست رہتے ہیں۔انھوں نے پھر اس مسجد میں درس و تدریس کا آغا ز کیا اور عبدالسلام ولی اس درس گاہ کے پہلی استاد رہ چکے ہیں جو اس وقت اسلامیہ ہائی اسکول میں بھی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔عبدالسلام ولی کے سامنے ہی شکیل صاحب نے خود کو تراشا اور ایک چمک دار ہیرے کی شکل و صورت اختیار کی نیر جس کی چمک دھمک سے پورے علاقے میں علم وحدیث کی روشنی پھیل گئی۔اپنے علمی سفرکو جاری رکھتے ہوئے شکیل صاحب نے پھر شہر کے مشہور عالم مولانا محمد امین عشائی اور بہار سے مولانا عبیداللہ سے علم و حکمت اور علم طب حاصل کیا۔اس کے بعدشکیل صاحب نے باقاعدہ حکیمی اور امامت کا پیشہ اختیار کیا ۔مولاناشکیل احمدایک ہمہ جہت شخصیت تھی،وہ محسن تھے،عام لوگوں کے دکھ درد میں ان کے معاون تھے،ان کی دینی خدمات اور سماجی خدمات کو کون نظر اندار کر سکتا ہے۔ وہ ایسی باغ وبہار شخصیت کا نام تھا تھا، جس کی مہک سے سارا علاقہ تازہ رہتا تھا۔وہ جس علمی دبستان کے روشن چراغ تھیں اور جن عالموں ،مفکروں کی صحبت میں رہ کر ان کے شعور اور ادراک کی پرورش ہوئی اور جو کچھ انھیں ان نامور ہستیوں کی صحبت میں رہ کر موصول ہوا تھا ،وہ سب ان کی حرکات و سکنات سے عیاں ہو جاتا تھا۔لیکن ان کی ذات میں کئی اور بھی اوصاف پائے جاتے تھے جو ان کے صرف اپنے تھے۔ جو انھوں نے خود محنت کر کے حاصل کئےتھے۔ان کی سادگی،شرافت ،انسان دوستی ، حق گوئی کے علاوہ خوشامد ،منافت ،ضد اور انانیت سے دور وہ ایسا حسین و جمیل گلستان تھا، جن کے بہت سے مداح تھے۔ان کا وجو اسیا ہرا بھرا درخت تھا جس کی شاخوں پر پرندے آشیانے بھی بناتے تھے اور چہچہاتے بھی تھے ۔ان کی شخصیت ان کے اپنے خاندان میں ایک نگینے کی حیثیت رکھتی تھی اور جہاں بھی جاتے تھے وہاں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرتے تھے۔ شکیل احمد رفیق و شفیق سب کے تھے ،ہر اک کے ساتھ انس و محبت سے پیش آتے تھے ، اپنے دشمنوں کے بھی دشمن نہیں تھے ۔ان کے دوستوں اور ساتھیوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔شکیل صاحب پڑھے لکھے آدمی تھے۔انہوں نے طب سیرت ،تاریخ،سیاست ، اور مذہبیات کا گہرا مطالعہ کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی سوچ میں کافی گہر ائی پائی جاتی تھی ۔ان کا دل تعصب اور حسد جیسی بیماریوں سے بالکل پاک تھا۔وہ مذہب یا فرقوں کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم نہیں کرتے تھے۔ان کے خطبات سے ان کی فکر آشکارہ ہوتی ہے۔بلاشبہ وہ ایک بڑے عالم اور بڑے انسان تھے۔بڑا عالم یا بڑا نسان اپنی تحریر یا تقریر سے اپنی تعریف خود نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے افکار و اعمال اور تقریریں ہی اس کے بڑے پن کے گواہ ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ شکیل صاحب ہمیشہ غریبوں ،محتاجوں اور مفلسوں کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ان کے دکھ اور درد میں ہمیشہ ان کا سہارا بننے کی کوشش کرتے تھے۔اللہ تعالی نے شکیل صاحب کو روحانی طاقت سے بھی نوازا تھا، اس کے توسط سے بھی انہوں نے بہت سارے لوگوں کے ذاتی مسائل بھی حل کئے۔انتہائی شیریف النفس اور مکر فریب سے عاری ،ملنسار ،صوم و صلوۃ کا پابند، با حیا وبا کر دار عالم اور قرآن و حدیث کا روشن چراغ13 نومبر2022 صبح کے چار بجے وضو کرتے کرتے اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے اور اپنی ساری روشنی قرآن و حدیث کی نذر کر کے اصلی گھر روانہ ہوگیا۔بقول حالی ؔ ؎
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا
( رابطہ۔9103654553 )
���������������������