منشیات کے جھولے میں صنفِ نازک کی جھول حسبِ حال

نورہ بانو ۔طالب ؔ سوپوری

منشیات کے جھولے میں صنف ِ نازک کا جھولنا کتنا دردناک ،کیسا صدمہ جانکاہ اور کتنی بُری خبر صفحہ ٔ قرطاس پر بکھیر گئی ہے ،ہر کوئی باشعور اور ذی حِس بندہ اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کردیتا ہے کہ آئے دن اس جنت بے نظیر میں کیسے کیسے گُل کھلائے جارہے ہیں ۔کیا یہ بُرائیاں ہمارے سماج میں خود بخود پنپ جاتی ہیں یا ہم دانستہ طور ان بُرائیوں کو صرف ِ نظر کرکے ترقی پسند شہریوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔کار بَد خود کریں اور لعنت کرے شیطان پر کے مصداق ،کہیں ہیروئن سمگلنگ ،کہیں اُمّ الخبائث ،کہیں چرس وگانجا ،کہیں افیم وشراب ،کہیں طبلے کی تھاپ ،کہیں پایل کی جھنکار اور اس پر طرہ دوا کے بدلے ڈرگِس ،کھُلے چھُپے گرم بازار اور ہمارے معصوم بچیوں کی دلفریب مستانہ ادائوں نے ،ہماری کلچرل ترقی کو ٹرانزٹ پوائنٹ بنادیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بچے پندرہ سال سے تیس سال کی عمر تک اس خباثت کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور دن بہ دن بتدریج اضافت کے منازل سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ہماری اس پیئر واری میں کلچرل ترقی کے سائن بورڈ آویزان کرنے میں اَسی ہزار مرد و خواتین مصروف ِ کار نظر آتے ہیں اور پانچ ہزار خواتین بھی اس مرض کی شکار ہوچکی ہیں۔اس بات کا بھی سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ ہر روز چار سے پانچ لاکھ روپے کی اشیائے منشیات شمالی کشمیر سے جنوبی کشمیر تک پہنچائی جارہی ہے اور اسے پارکوں ،پولیس اسٹیشنوں ،تفریح گاہوں اور تعلیمی اداروں کے متصل فروخت کیا جارہا ہے ۔
اب المیہ کیا ہے؟ خریدنے والے بھی ہم ہیں اور بیچنے والے بھی ہم ہی ہیں،کوئی غیر نہیں،جسے شکوہ کریں۔کوئی بے دین نہیں ،اہلِ ہنود یا اہلِ یہود بھی نہیں۔دیندار لوگوں کے بچے اس وبا کے شکار ہوئے ہیں،تاسف کا مقام ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔مجھے یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ ہمارے سیدھے سادے گائوں کے بچے بھی اس لت کے عادی ہوئے ہیں اور والدین بھی اُن کے سامنے اُف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے ہیں۔مغرب کی اندھی تقلید سے ہم حواس باختہ ہوگئے ہیں ،اخلاقی تنزل کے شکار ہوگئے ہیں۔فلاح کی راہ تو ہم نے واقعی پالی ہے مگر اس کی آڑ میں ہم نے کیا کیا کھویا ہے ۔ایک بار ان اَسی ہزاربچوں کی اُٹھتی جوانیوں کی طرف نگاہیں وا کرو اور دیکھو کہ والدین کی تغافل شعاری سے یہ قوم کا انمول سرمایہ کس قدر بے پناہ پستیوں میں ڈوب چکا ہے ۔
بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت میں،اُن کے اخلاق و کردار کی تعمیر میں ہماری مائوں کا بڑا عمل دخل ہے لیکن کلیجہ چاک ہوتا ہے کہ والدین کے چھتر چھایا میں پانچ ہزار لڑکیاں بھی اس قبیحہ غلطی کی شکار ہوکر قوم کا سَر جھُکانے میں ہی فخر محسوس کرتی ہیں ۔یہ کسی اخبار کا گراف ہے جو اپنی سرخیوں میں عورت ذات کی بے ہودگیوں کی نظارہ کشی کرتی ہے ۔واقعی ہم مادی ترقی کرتے کرتے اخلاقی قدروں کی حفاظت کرنے سے معذور دکھائی دیتی ہیں ۔عورت کا رول معاشرے کی تعمیر میں صرف کیا جاتا تھا مگر آج کی ماں اپنی بچی کی مصروفیت موبائیل اور ٹیلی ویژن سے چھین نہیں لے سکتی ہے ۔ماں اپنی دنیا میں گم اور بچی اپنی دنیا میں گُم۔ اس ساری تباہی میں ہم کن کن کو موردِ الزام ٹھہرا ئیں گے ۔سارا دوش تو میں مائوں پر ہی نہیں چھوڑ سکتی ہوں ۔ہاں ! جہاں تک میری دانست کا تعلق ہے ،پہلے نمبر پر اندرونِ خانہ کی تغافل شعاری ،دوئم دین ِ مبین سے لاتعلقی اور سوئم سوسائٹی کی عدم دل چسپی ۔آج ہمارے بچے اخلاقی پستیوں کے دلدل میں پِس چکے ہیں ۔والدین بچوں کو سنبھالنے کا رسِک ہی مول نہیں لیتے ہیں۔اسلام کو ہمارے ترقی پسند گھرانوں نے اخراج ہی کیا ہے اور ہماری نو خیز کلیاں اس کو ذہنی طور قبول کرنے سے قاصر ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا جو انہیں ایک بار والدین بھی پوچھ لیتے کہ آپ بازارِ حُسن جاکر ایک پاولر سے (مرد ہو یا عورت)بال سنوارنے میں اپنا قیمتی وقت اور مانگے کا اثاثہ ضائع کرکے چند دنوں کی خوبصورتی کا مظاہرہ کرتی ہو ،بجائے اس کے کہ دینی کتب کی ورق گردانی سے اپنے آپ کو محظوظ کرتی۔والدین سے گلہ اتنا ہی ہے کہ عصر حاضر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرتیں تو ہمارے خاندان بھی دیندار وں کے صف میں شمار ہوتے اور آخرت میں بھی کوئی باز پُرس نہ ہوتی۔
مکّرر عرض کرتی ہوں کہ اَسی ہزار بچوں کی زندگیاں بند کمروں کی نذر ہوچکی ہیں ۔کوئی گریجویٹ ،کوئی انڈر گریجویٹ اور کوئی پوسٹ گریجویٹ! خدارا ان کی جوانیوں پر والدین ترس کھائیں ،انہیں اس ذلت سے چھڑانے میں اپنا پدرانہ رول ادا کریں۔پھر میں ائمہ مساجد سے بھی مودِ بانہ گزارش کرتی ہوں کہ وہ بھی اپنے خطبہ میں والدین کی توجہ بچوں کی تباہی کی طر ف مبذول کرانے کی کوشش کریں۔رہی بات سوسائٹی کی عدم توجہی کی ،وہ روز بروز ذاتی ترقی میں ہمہ تن مصروف ہوتی جارہی ہے ۔سماج ہر محلے میں اگر ایک کمیٹی کا بھر پور جائزہ لیا جاتا تو شاید اس قدر ہم تنزل کی راہ پر گامزن نہ ہوتے۔اب بھی اگر نہ جاگے تو خدا بچائے ہم ایک عظیم سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔یوں بھی تو یہ زندہ لاشیں ہی ہیں ،نہ کھانے کا غم نہ پینے کی فکر،بس !یک گود بے خودی چاہتے ہیںاور والدین کی خاموشی ان بچوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے ۔واقعی اگر ہماری محلہ کمیٹیاں ،امام صاحبان،اساتذہ کرام اور سوسائٹی میں ذی شعور اور باحوصلہ بندے یکجا ہوکر اُن کھیت کھلیان کے مالکوں سے اپنی گفت و شنید سے اس بھنگ ،خشخاش کی کلیوں کو بِن کھلے مُرجھانے میں اپنا رول
ادا کرتے ،تو اُن کی کاوش سے اچھائی کے بیل بوٹے نمودار ضرور ہوجاتے ۔میرے عزیز والدین! خدارا اپنے گھروں کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ فرمائیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم قبرستان بھی آباد کریں اور عمر بھر کف ِ افسوس بھی مَلتے رہیں گے ۔بس شیخ سعدی کے اس شعر پر اکتفا کرتی ہوں۔ ؎
رفتم ذخار از با کشم ،مہمل نہاں شُد دُورنظر
یک لحظہ غافل بودم او ،صد سالہ راہم دُور شُد
موبائیل:9858770000