ملکی آزادی کی طرح دستوری آزادی کی خاطر مسلمانوں کو بھی پہل کرنا ہوگی۔کہتے ہیں کھلادشمن نظر آتا ہے مگر چھپا دشمن نظر نہیں آتا۔ دراصل یہ منافقین ہیں، یہ آستین کے سانپ کہلاتے ہیں، یہ ہر دور میں ہوئے، یہ ملت اسلامیہ میں فتنہ و فساد کا باعث ہوا کرتے ہیں. انہیں دشمنان اسلام کی ہر طرح سے پشت پناہی ملا کرتی ہیں۔ شاعر اسلام علامہ اقبال، ان منافقین کیلئے کہہ گئے ہیں ؎
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگ دین ننگ ملت ننگ وطن
ایک طرف آستین کے سانپ اور منافقین ملت اسلامیہ کو اندرونی صفوں میں گھس کر زک پہنچا تےآئے ہیں، دوسری طرف آر ایس ایس جیسی ہندوتووادی جماعتیں ملت اسلامیہ ہند کے ساتھ دشمنی کے لئے ادھار کھائی بیٹھی ہیں۔ملت کے صفوں میں موجود آستین کے سانپوں کو پہچاننا انتہائی ضروری ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان سے سب واقف ہیں، دراصل ایسا نہیں ہے۔ہمارے خواص کو بھی اس سلسلے میں ناواقف محض ہیں ۔ان کا کردار یہی رہا ہےکہ ملت کی صفوں میں شامل ہوکر اوراسلام کی آڑ میں ملت کو زک پہنچاتے رہیں ۔کون نہیں جانتا کہ ہندوتوا وادی آر ایس ایس،اسلام اور مسلمانوں کی کس قدر دشمن ہے ،1924 کو اپنے روز قیام سے ملک بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنانے پر تلی ہے۔اسے ملک کے قاعدے قانون، دستور پر اعتماد و یقین نہیں ہے۔ ملک کا دستور، ملک کے ہر شہری کو برابری، مساوات اور مذہبی سماجی آزادی کی ضمانت دیتا ہے،ملک کے دستور میں ہندوستان کا کچھ نہیں ہے، سب باہر کا ہے۔اس میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب’’ منوسمرتھی‘‘ کی کتھا ہونہ چاہیے، ایسا آ ر ایس مانتی آئی ہے۔یہ دستور کو بدلنا یا بگاڑنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے روز قیام سے آج تک ملک کے مسلمانوں کو انتہائی تکالیف پہنچائیں اور پہنچاتی آرہی ہے اوریہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔مذہب اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے آر ایس ایس کے خیالات پس پردہ نہیں ہیں۔یہ مسلمانوں کو ہندوستان کا دوسرے درجے شہری مانتی ہے۔صرف اسلام اور مسلمانوں کے نام سے ہی نفرت نہیں بلکہ اسلامی شریعت سے بھی اس کی ناپسندیدگی ایک کھلاراز ہے ۔ ہندوتوا وادی آر ایس ایس کی متعدد ذیلی تنظیمیں ، سماجیت اور ثقافت کا لبادہ اوڑھ کر سماجی تانے بانوں کو توڑتی چلی آئی ہے۔ہندو مسلم فسادات میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخیں نمایاں کردار اداکرتی آئی ہیں۔ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک ہزارہا فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، فسادات کے بعد سرکاری تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹ ظاہرکرتی ہیں کہ ان فسادات میں ہندوتواوادی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہ سنگھٹن انتہائی چالاکی، عیاری کے ساتھ ایک منظم طریقہ سے کسانوں، دلتوں، آدی واسیوں، پسماندہ طبقات اور سیاسی زندگی کے متعدد شعبوں میں، سماجیت وثقافت کے نام پر گھس پیٹھ کر چکی ہے۔ہر زہر یلے نشتر کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کرتی آئی ہے۔اکثر ہم جسے ہندو مسلم فسادات اور دنگے کہتے ہیں، پسماندہ اور دلت طبقات بنام ہندو اس میں پیش پیش ہوا کرتے ہیں،جنہیں ہندوتوا واد کی سر پرستی ملا کرتی ہے۔آر ایس ایس کے پاس ہندوتوا واد میں پسماندہ اور دلت طبقات کی فلاح وبہبود کے لئے کچھ بھی نہیں ہےکیوں کہ ہندوتواوادی اور برہمن وادی، ہندو مذہبی کتابوں بالخصوص ’’ منو سمرتی ‘‘پرچلنے کا عہد کئے ہوئے ہیںاورچھوا چھوت، اونچ نیچ، ذات پات ’’منو سمرتی‘‘ کا حصہ ہیں۔ بنابریںہزاروں سینکڑوں سال سے دلتوں کی عزت و آبرو، جان و مال کی بربادی، برہمن وادیوں کے ہاتھوں ہوتی آئی ہےجو اب تک دنیا بہ نگاہ ِ حسرت دیکھ رہی ہے۔یہ سب کچھ ہند میںا قلیتوں کو دستوری تحفظ کے باوجود ہوتا چلاآ رہا ہے۔یہ ہندوتوا واد اور برہمن واد کا نظریاتی کردار کا ثبوت ہی ہے کہ ممتاز دلت لیڈر اور آئین ِ ہند کے معمار ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ وہ ہندو پیدا ہوئے ہیں مگر ہندو مرنا نہیں چاہتے اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معتقدین کے ساتھ بدھ دھرم قبول کر لیا،دلتوں کو مسلمانوں سے گمراہ کرنے کے لئے ہندوتوا دی لیڈران یہ کہتے آئے ہیں کہ اونچ نیچ، چھوا چھوت ذات پات مسلمانوں کی دین ہے، ملک کے عوام کے سامنے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، گمراہی پھیلانا، ہندوتواوادیوں کا آزمودہ حربہ ہے اور سال ہا سال سے یہ ان کا شیوہ اور شعار رہا ہے۔ ان کو اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ یہ کہیں کہ ہم چھوت چھات اور تفریق ِ آدمیت میں یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ملک میں اونچ نیچ، ذات پات، چھوا چھوت کا موجد جتلانے کے علاوہ مسلمانوں کودیش دروہی اور آنتک وادی کے نام سے پکارتے ہیں۔ الغرض آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف پورے ملک کے عوام میں سخت اور شدید ترین گمراہیاں پھیلانے میںسر فہرست ہے۔ملک کی آزادی کے بعد سےآج تک قوم و ملک کو جتنے بھی نقصانات اٹھانے پڑے ،ان کی خاص الخاص وجہ آر ایس ایس اور اس کا ہندوتوا واد ہی ہے۔آر ایس ایس مسلمانوں ہی کی نہیں ملک کے ساری اقلیتوں ، پسماندہ طبقات بشمول دلت کی ازلی دشمن ہے۔ملک کی تحریک آزادی کی یہ دشمن رہی، آزادی کی تحریک میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا، ہندوتوا وادی آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے نتھو رام گوڈسے نے راشٹر پتا گاندھی جی کا دن دھاڑے قتل کیا، کیونکہ ان لوگوں کو عدل و انصاف ، مساوات اور آئین و دستوری آزادی کی بات کرنے والوں سے نفرت ہے اور انہیں راستوں سے ہٹانا خوب جانتی ہے۔کسی کی زندگی سے کھیلنا اس سنگھٹن کے لئے کھیل ہے،بے پناہ شرانگیزی کی بناپر آر ایس ایس کو ملک دشمن اور غداروں کی پارٹی سے منسوب کیا جاتا ہے ۔آج ملک جس پر آشوب دور سے گذر رہا ہے، ایسا کبھی نہ تھا، ہندو تو واد کی شدت سے ملک کے عوام کی خاطر خواہ آبادی کو زک پہنچ رہی ہے، وہ اس کے خلاف میدان عمل میں ہیں، صرف اقلیتیں ، کمزور پسماندہ طبقات، دلت، آدی واسی اور مسلمان ہندتوا کا ہدف ہیں جن کے خلاف پورے ملک میں میدان عمل میں سرگرم ہیں جب کہ مہنگائی، بے روزگا ری، نوٹ بندی،جی ایس ٹی وغیرہ کی بناء پر ملک کی کثیر آبادی مودی سرکار پر برہم ہےاور بدلاؤ چاہتی ہے۔اس کاتوڑ کر نے کے لئے ہندتوا والے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور شکوک وشبہات پھیلا رہےہیں تاکہ لوگوں کو اصل مدعا یاد ہی نہ رہیں اور آپسی دھینگا مشتی میں عملی دلچسپی لینا شروع کر یں۔ یوں اچھے دنوں کا وعدہ ایک سراب دکھائی پڑتا ہے۔
ملک میں فرقہ پرستی پیداکردہ طوفان ِبد تمیزی مین مسلم اقلیت کا کچومر نکل رہاہے اور وہ سیا سی اعتبار سے ڈِس ایمپاور ، معاشی لحاظ سے پسماندہ اور سماجی طور متفرق ہیں۔ حالانکہ دین اسلام نے مسلمانوں کو متحد منظم ہونے کے فوائد بھی بتائے ہیں ، نفاق وانتشار کے خطرات اور نقصانات بھی بتلائےہیں مگر پھر بھی مسلمانانِ ہند ایک غیر منظم ریوڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ کہیں یہ مسلک اور مکتب کے نام پر بٹے ہین ، کہیں یہ زبان اور نسل کی غیر فطری تقسیم کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ مسلکی انتشار ہی تھا کہ جس کے نتیجے میں ماضی میں ملت اسلامیہ کئی بار عظیم اور بڑی تباہی سے دوچار ہوئے ،ورنہ جب تک وہ عقیدہ ٔ توحید، اخوت اور نیک عملی کی بنیاد پر منظم ومتحرک تھے، ان کا حال یہ تھا ؎
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
یہ ملی اتحاد اور وحدتِ فکر کا ثمرہ تھا جس کی بناء پر ہم ایک دنیا میں سرخرو ہوکر رہےاور اپنی کامیابیوں کا جھنڈا ہپر شعبہ ٔ زند گی میں لہرایا۔ تقریباً سات سو سالوں تک اندلس میں انتہائی شاندار طریقہ سے حکومت کی، مگر جب آپسی نا اتفاقی اور انتشار نے انتہائی ذلالت کے ساتھ وہاں ہماری حکومت، تہذیب وثقافت کاخاتمہ بالخیر کردیا توآج وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا، ہماری بنائی ہوئی مساجد تو وہاںہیں مگر یہ ویران وخستہ ہیںکہ ان کی حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔اسپین، قسطنطنیہ ،اندلس میں شاندارمسلم حکومتوں کو زوال کیسے آیا؟ یہ جاننے کے لئے تواریخ کے اوراق کا جب جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہےکہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ اپنوں میںنا اتفاقیاں، مسلکی لڑائیاں، فروعی اختلافات پر بے ہودہ جنگیں اور دنیا کے لالچ نےمل کر ہمیں شکست فاش دے دی ۔وقت کے ظالم و جابرچنگیز خاں نےیونہی بغداد میں گھس کر جبر وتشدد کا سیلاب برپا نہ کیا بلکہ اس کے لئے ہم جیسے مسلمانوں نے خود راہیں ہموار کیں اور برادرکشی کے عنوان سےظلم وتشدد کی ایک سیاہ تاریخ مرتب کر دی۔ المختصر مسلم سلطنتوں کی تاراجی سب ہماری آپسی نا اتفاقی اور بے پناہ مسلکی تنازعوں اور لڑائیوں کی بناء پر ممکن ہوئی ۔
آج جب ہم ایک طرف اپنے وطن مالوف میںمسلم بیزار اور ملک دشمن ہندوتو کی لپیٹ میں سر تا پا آچکےہیں، پھر بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ حالانکہ فرقہ پرستانہ سیاسی ومعاشی پالیسیوں کے زور پر ملک کی مسلم اقلیت کو خاص کرملک تعمیر وترقی کی دوڑ میں سے باہر کیا جارہاہے ۔اس مشترکہ ظلم وعدوان کے باوجود ہم آپس میں غور وفکر کر نے تیار نہیں کہ خود کو کس طرح ملّی اتحاد میں پروئیں ، کیسے شیر وشکر ہوجائیں ، کن اقدامات سے مسلکی ومشربی تقسیم کی نخوستوں سے بچ جائیں ، غیر متحد اور غیر منظم ہونے کے بُرے اثرات سے کیسے چھٹکارا پائیں۔اس کے بجائے ہم سالہا آل سے مختلف الخیال نہیں بلکہ منتشر الخیال ہیں، تقسیم درتقسیم ہیں ، ایک دوسرے کے درپئے آزار ہیں ، باہم دگر کردار کشیاں کرنے سے گریز نہیں کر تے۔ایسے میں ہم کس منہ سے مشترکہ دشمن سے کہیں خبردار بہت ہوچکا ہے ، یہ پیاراپیاراملک مسلمانوں کا بھی ہے،ملک کی آزادی، تعمیرو ترقی، وحدت و سالمیت میں مسلمانوں کا کردار بھی انتہائی شاندار رہاہےجس کی ایک مستند تاریخ ہندومورخین نے فخراً لکھی ہے۔ ہم فرقہ پرستوں سے کیسے کہیں کہ تم نے انگر یز کی مخبریاں کیں ،آزادیٔ وطن کو بہت ٹالا، اغیارغلامی کو بصدق دل قبول کیا، اوروں کے لئے ملکی آزادی قومی فریضہ تھی مگر ہم مسلمانوں کے لئے یہ مذہبی فریضہ تھی، مسلمانوں کےعلمائے دین اور فضلائ نے ہی انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کو جہاد قرار دیاتاکہ ملک آزاد وخود مختار ہو،ہزاروں علمائے دین اور لاتعداد مسلمانوں نے ملک کی آزادی کی خاطر پھانسی کے تختہ ٔ دار تک کو چوما، جنگ آزادی اول بہادر شاہ ظفر ایک مسلمان بادشاہ کی قیادت میں لڑی گئی،اس لڑائی میں ملک کے آزادی پسند ہندو مسلمان مزاحمت کاروں سے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے تھے، تب جاکرملک آزاد ہوا۔اس ملک کے بزرگوں نے ملکی حالات کو بخوبی سمجھتے ہوئے یہاں کا نظام حکومت چلانے کے لئے ایک بہترین دستور مرتب کیا، جو نمایاں طور پر جمہوریت، عدل وانصاف، مساوات، ہر ایک کو یکساں مذہبی، سماجی، آزادی جیسے اعلیٰ آدرشوں سے مزین ہے۔ ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کر نی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ یہ نمایاں طور پر ہندوتوا وادی ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد سے آج تک ملکی عوام کو دستوری آزادیوں سے محروم رکھنے کے لئے ملک کے کمزور طبقوں، کسانوں، آدی واسیوں، دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کو نہ صرف ہر شعبہ ٔ حیات میںپیچھے دھکیلا بلکہ خاص کرمسلمانوں کو آپس میں دست وگریبان کر نے کے لئے سازشیں رچائیں ، مسلمانوں کے اندرجعفر وصادق پیدا کروائے تاکہ یہ کبھی اپنے دستوری حقوق اور آئینی آزادیوں کی بات کبھی لب پر نہ لائیں بلکہ آپسی کدورتوں ، چپقلشوں ، منافرتوں میں غرقآب ہوکر خس وخاشاک کی طرح وقت کے دھارے میں بہہ جائیں کہ ان کا ملّی تشخص اور دینی ا نفردایت قصہ ٔ پارینہ ہوں ۔ کیاہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی امت اسلامیہ نہیں دے گئے تھے؟ ہم نے دشمن کے ایما پر اسے تقسیم در تقسیم کیوںکردیا؟ہم وحدت اسلامی میں منسلک ہونے کے بجائے مسلکوں میں کیوںبنٹ گئے؟ مسلک ومشرب کے نام پر ہم ایک دوسرے کو نقصانات پہنچاننے میں کس ڈھٹائی سے شیر بنے ہوئے ہیں ۔یہ ایک انڈیا کی ہی بات نہیں بلکہ عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام ملت ِاسلامیہ کو آپس میں لڑوانے اور تقسیم کرنے میں لگے ہیں ۔شام، عراق، پاکستان، افغانستان وغیرہ جیسے مسلم ممالک میں کس قدر بڑے پیمانے پر مسلمان ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے ہیں، امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک منظم طور پر اپنے نئے عالمی نظام یا استحصالی نظام اور’’ دہشت کے خلاف جنگ‘‘ جیسے نام نہاد منصوبوں کے تحت دنیا کے متعدد مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں،اسی کے ساتھ ساتھ مسلکوں کے نام پر بذات خود مسلمان کس طرح ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں ملوث ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال ہم مسلمانو ں کے لئے ایک خدائی طمانچہ ہے۔ا گر عالم ِ کفر کی ان چالوں نہ سمجھیں اور اپنے صفوں میں موجود ذُوالوجہین لوگوں کو الگ تھلگ نہ کریں جو ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف لڑمر کر صفحہ ٔ ہستی سے معدوم ہوجائیں گے ، اللہ اپنے وعدے کے مطابق ہم بے وفاؤں اور اسلامی اتحاد کے باغیوں کی جگہ کوئی اور قوم عقیدہ ٔ توحید ورسالت کی صحت مند بنیاد وں پر اسلامی اتحاد کا نمائندہ بنائے گا کہ ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔ اس ہزیمت و شکست کو روکنے کی ایک ہی سبیل ہے کہ ہم اپنے اندر عقیدے کی پختگی ، نکو کاری، انسان دوستی، ملی اتحاد اور اخوت ومحبت کی لڑی میں پرو جائیں اور یاد رکھیں کہ وحدہ لاشریک نے اسلامی شریعت کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اتحاد کا درس دیا ہے، جب کہ نفاق و انتشار پر اٹھائی گئی دیواریں کمزور اور اُکھڑ جانے کئ خطرے سے دوچار رہتی ہیں ۔ ہماری روز مرہ زندگی میں مسلمان ہونے کے باوجود جب نفاق اورنا اتفاقی بڑھتی جائے ، حتیٰ کہ نکاح ،شادی بیاہ، گھر گرہستی ،کفن دفن غرض ہر معاملے میں دین اسلام سے ہٹ کر چلنے کی عادت پڑجائے تو ہمارے معاشرے سے اسلام کی اصل قوتِ اخوت اور دینی شناخت کا خاتمہ ہو نا طے ہے ۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ انفرادی سطح پر ایمان اوراعمال صالح سے اپنا کردار سنواریں اور اجتماعی سطح پر اتحاد پروری کی راہ چل کر اپنی اس شناخت اور انفرادیت کو تقویت بخشیں۔ یہی ایک واحد راستہ ہے جس پر چل کر مسلمانوں کوسہ طلاق سے مسلم پرسنل لا تک حملوں سے بچایا جاسکتا ہے ، جماعتی عصبیت اور مسلکی تعصب کا کھاتہ بند ہوسکتا ہے اورملی اتحادپر شب خون مارنے والوں کو دندان شکن جواب دیا جاسکتاہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں ہمیں یہ ابدی درس یاد رکھنا چاہیے ؎
نورِ حق شمع الہٰی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدااُس کو مٹا سکتا ہے کون