مقِّر اور مبلغ میں فرق | شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات فکر وادراک

 

سید آصف رضا

تبلیغ دین اور دعوت الی اللہ ایک عظیم فریضہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اَلاَ! فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔ ’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔‘‘ کی تعمیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعدادنے دین حق کی روشنی سے دنیا کے مختلف گوشوں کو منوّر کیا۔ اولیاءِ کاملین رحمہم اللہ نے اسی کام کو آگے بڑھایا اور سفر کی صعوبتوں اور دوسری مشکلات کے باوجود تبلیغِ دین کے لئے دور دراز علاقوں کا رُخ کیا۔ ہم انہی بزرگ ہستیوں کے مرہونِ منّت ہیں جن کی محنت اور کوششوں کی وجہ سے ہمارا شمار بھی امتِ مسلمہ ہوتا ہے۔ فالحمدللہ! ماضی قریب تک مستندو مخلص علماءِ کرام القابات و پہناواور ظاہرداری کے بغیر دین حق کے احکامات عامۃ المسلمین تک پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ مگر پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے یہاں رجحان بدل گیا ہے، اب ظاہرداری و بے جا القابات کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ مقرروں کے ناموں کے ساتھ ’’علامہ و مولانا‘‘ لکھا جاتا ہے لیکن جب ان کی تبلیغ کا معیار دیکھتے ہیں توہم سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا واقعی علامہ و مولانا ایسے ہوتے ہیں؟
علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں: ’’مقرّر تو وہ ہے جو خالص اپنے تجربہ اور محنت سے کسی موضوع پر بول سکے اور مخاطبین کو متاثر کر سکے ،لیکن وہ خود تہی مایہ، بے بضاعت، موضوع کی اصلیت و متعلقات سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ مولانا سید حسین احمد صاحب بارہا اپنی تقریروں میں اس بات پر افسوس کرکے فرماتے تھے کہ تحریکِ خلافت نے ہندوستان میں بڑے بڑے مقررین کو پید کیا مگر یہ تحریک علماء اور محققین کو پیدا نہ کر سکی۔ کشمیر میں بھی یہی بات ہے کہ مقررین کا کیا کہنا ، ہزاروں ہیں اور بولتے وقت فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں اور سامعین کو آبدیدہ بنانے میں اپنے زمانہ کے افلاطون الہٰی سے کم نہیں ہیں۔ مگر جائیے! اور آپ اُن سے کسی عربی کتاب کی دو سطریں صحیح پڑھوائے تو یہ اُن سے ممکن نہ ہوگا۔ تو پھر یہ حضرات کتاب و سنّت اور فقہی مسائل پر کیا بحث کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ ایسے واعظوں اور مبلّغوں سے سیّدنا حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کوسوں دور بھاگتے تھے۔ آئیے! کم از کم سیرۃ النبیؐ (از مولانا سید سلیمان ندوی) کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ موضوع اور منکر روایتوں نے کتنا عروج پایا ہے اور افسوس کہ کتنی صدہا حدیثوں پر عمل کرنے سے ہم بے بہرہ اور بے نوا ہیں۔ حال ہی میں ایک استفتاء راقم کے پاس آیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ معراج کی رات میں ایک مشہور ولی خدا ؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا۔ کہا کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کوئی آیتِ قرآنی یا کوئی حدیث یا اجماعِ امت یا قیاسِ جلّی صحیح سے ہی کوئی بات حضرت سید المرسلین ؐ کی طرف منسوب کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔ کیونکہ حضور اقدس ؐ نے فرمایا، جیسا کہ مسلم شریف میں ہے: إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔’’ میری طرف جھوٹ بات منسوب کرنا، یہ ایسا جرم نہیں جیسا کہ زیدؔ و عمروؔ کی طرف جھوٹ بات کی نسبت کی جائے بلکہ بہت بڑا ناقابلِ عفو و درگذر جرم و گناہ ہے۔‘‘اور فرمایا: پس جس نے قصداً میری طرف غلط اور جھوٹی بات منسوب کی توہ اپنا ٹھکانا جہنم میں تلاش کرے۔ اور حضرت امام مسلمؒ تاکید کرتے ہیں: أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ عَرَفَ التَّمْيِيزِ بَيْنَ صَحِيحِ الرِّوَايَاتِ وَسَقِيمِهَا، وَثِقَاتِ النَّاقِلِينَ لَهَا مِنَ الْمُتَّهَمِينَ، أَنْ لَا يَرْوِيَ ۔ الخ ’’بہت ضروری ہے کہ مسلمان پہلے صحیح اور کمزور روایتوں میں فرق کرے اور معتمد راویوں اور متہم راویوں کے درمیان فرق کرکے مُتہم راویوں کی روایت نقل بھی نہ کرے۔ الخ‘‘۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر ایک ابجد خوان کو امام ابو حنیفہؒ کی طرح پیش کیا جاتا ہے اوریہ جانتے تک نہیں ہیں، یہ بے چارے کہ اُن اماموں کی کتابیں حشو و زواید س کس طرح بھری پڑی ہیں۔ مجھے اس موقع پر ایک بات یاد آگئی کہ کشمیر میں چند سال پہلے مرحوم ڈاکٹر سید محمود صاحب چانسلر جامع ازہر مصر تشریف فرما ہوئے، اثناءِ کلام میں خاکسار نے حضرت شیخ شہاب الدّین سہروردیؒ کو لفظ’’امام‘‘ سے ذکر کیا۔ آپ نے فوراً ااس پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا: فکنَّۃٌ مَا کَانَ امامًا (حضرت شہاب الدّین سہروردی ؒ ہر چند دریایِ علم تھےلیکن امام کہلانے کے حقدار نہیں ہیں)۔ میں نے جواب میں تاویل کرتے ہوئے کچھ کہہ دیا مگر وہ ایسا تھا جیسا کہ کوئی آفتاب کے سامنے چراغ رکھے، اور عوام بھی کیسے بیجا ہیں کہ حضرت ابو حنیفہؒ کے مقابلہ میں معمولی طالب علموں کو امام و پیشوا کے لقب سے ملقب کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس دین ِ حق کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا، مُبلّغِ دین وہ ہونا چاہیے کہ جو بنیادی علومِ اسلامیہ سے واقف ہو، اور مسائلِ اختلافیہ کو نہایت حلم و متانت سے پیش کرے اور اسلام پر رحم فرما کر کفر کی مشین گن بند کرے اور علمائِ اُمتِ مرحومہ کو کفر و الحاد کی طرف نسبت نہ کرے، خاص کر جو حضرات دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان کو مجالس و محافل میں بُرا نہ کہلوائے اور وعظ و نصیحت میں وہی بات کہے جو تمام عباد اللہ کے لئے مفید اور نفع رساں ہو۔ اپنے ناکارہ خیالات کے اظہار سے معاذ اللہ راقم کا مقصد کسی خاص دینی جماعت یا کسی عالم کی توہین و تحقیر مقصود نہیں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین حق کے حقیقی خدوخال قائم رہیں اور مبلغین ایسے پیدا ہوں جو صحیح و مُقم، رطب و یابِس اور اصل و فَرع میں فرع میں فرق کرنے کی صلاحیّت رکھتے ہوں اور یہ کہ تبلیغ سے پہلے خوب تیاری کرکے مسجدوں اور محفلوں کو آیاتِ بیّنات اور احادیث صحیحہ سے منور کر لیا کریں اور تائید میں اتباع سلفِ صالحین کے اقوال و اعمال نقل فرمایا کریں اور وہ بھی بہ نقل صحیح اور سلفِ صالحین کی ضد و عداوت اور نفرت دلانے والے بے اصل وعظوں سے پرہیز کریں ۔‘‘(ماہنامہ الاعتقاد، دسمبر 1985ء)
ہمارے یہاں اب حالات بدل گئے ہیں۔ جیّد اور مستند علماء کی مسندوں پر’’پمپفلٹ خوان‘‘ اور’’نقال‘‘ براجمان ہیں، جو اصلاحِ عقائد و اعمال کے بجائے تکفریت کو رواج دے رہے ہیں اور سوادِ اعظم کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ۔ بردباری اور تحمل کی جگہ بے صبری نے لی ہے اور حکیمانہ دعوتِ دین و تبلیغ دین کی جگہ تنظیم پرستی اور شخص پرستی نے لی ہے۔ اوراس طرح اس نفس پرستانہ سوچ نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی اجتماعیت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر کس و ناکس نے اپنے ناموں کے ساتھ علامہ، مولانا اور دوسرے سابقوں اور لاحقوں نے حقیقی علماء اور ان مقررین کا فرق ختم کیا ہے، خاص کر نوجوان طبقہ جذبات کی رو میں انہیں مقرروں کو’’علامہ و مولانا‘‘ سمجھتے ہیں۔ الا ماشاءاللہ
ہماری ان مقرر صاحبان سے توقع ہے کہ وہ اپنی طرف سے اپنے ناموں کے ساتھ ’’علامہ و مولانا‘‘ نہیں لکھ رہے ہوں گے بلکہ ان کے چاہنے والے ایسا کرتے ہوں گے۔ یہ سطور ان صاحبان کی توجہ کے لئے رقم کی گئیں کہ وہ اپنے ان چاہنے والوں کو ایسے’’بے جا القابات‘‘ استعمال کرنے سے روکیں اور یہ القابات صرف انہی صاحبان علم کے لئے مختص رکھیں جو واقعی اس کے اہل ہیں۔ انجمن تبلیغ الاسلام کے رہنما ڈاکٹر پیرزادہ سمیر شفیع صدیقی صاحب کو کون نہیں جانتا، وہ نہ صرف ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں بلکہ ان میں وہ ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ القابات کے مستحق ہیں۔اس کے باوجود کچھ ماہ پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا کہ ان کے نام کے ساتھ القابات لگانے سے گریز کیا جائے ، جس کے لئے وہ قابلِ مبارکباد ہیں اور یہ ان کے پُر خلوص ہونے کی ایک علامت ہے۔ توقع ہے کہ باقی مبلغین، جو محض اردو کتابیں پڑھ کر واعظ کہتے ہیں ، اسی طرح اپنے چاہنے والوں کو بے جا القابات استعمال کرنے سے روکیں گے۔ ؎
انداز بیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
[email protected]>