معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟ (۲) غور طلب

محمد شمیم احمد مصباحی
اپنی اصلاح کے بعد اب معاملہ اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کا آتا ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مصلحین قوم و ملت اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بد عملی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں حالانکہ قرآن مقدس میں واضح انداز میں فرمایا گیا ہے۔’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘ (سورۂ تحریم:6) اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی اصلاح کے بعد سب سے پہلے خود اپنے گھر والوں کے اصلاح کی ذمہ داری ہے، جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات و اطوار سے آراستہ کرتے ہیں،احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہوئی ہیں۔
اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے، سب سے پہلے اپنے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں؟ ان کے اعمال کس طرح کے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں۔ اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح رہنمائی کریں، دین کے اصولوں پر کاربند ہونے کے لیے ہم ان کی مدد کریں، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ اور کورے ہیں تو ہم انہیں تعلیم کی اہمیت بتا کر علم حاصل کرنے کی جانب رغبت دلائیں، اخلاق سے عاری ہوں تو ان کو اچھے اخلاق سکھائیں، ان کے معاملات زندگی خراب ہوں تو انہیں بتائیں کہ معاملات کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟ یہ سارے کام الفت و محبّت اور نرمی و پیار کے میٹھے انداز میں کریں۔ صحابیٔ رسول حضرت ابزیٰ خزاعیؓ روایت کرتے ہیں کہ کہ ایک دن سرکار دو عالم ؐ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے، نہ ان کو علم سیکھاتے ہیں، نہ ان کو نصیحت کرتے ہیں، نہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں اور نہ ہی ان کوبُرائی سے روکتے ہیں، لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے، نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی بات سیکھتے ہیں، اللّٰہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سکھائیں، عقل کی باتیں بتائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں، اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں عنقریب ہی تمہیں اس دنیا ہی میں سزا دوں گا۔‘‘(کنزالعمّال ج/3 ص/684)
اپنی ذات، اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے لوگوں کی اصلاح کے بعد عام مسلمانوں کے اصلاح کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ مسلمانوں کو منکرات (برائیوں) میں مبتلا دیکھیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے(حتّی المقدور) روکیں، پھراس روکنے کے بھی مختلف درجے ہیں جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلافِ شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے، اگر ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے اور اسے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زبان سے کہنے کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، گویا اگر دل سے بھی برا نہ سمجھے تو مسلمان یا صاحبِ ایمان کہلانے کا صحیح معنوں میں مستحق ہی نہیں ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور کن بنیادوں پر صحابۂ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتدا و پیشوا بن گئے۔ ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل و غارت گری کا رواج تھا، وہ لوگ راہِ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوف الٰہی اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا، وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا وہ قیصروکسریٰ جیسے عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح رہے۔
آج ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم و نسق، یقین محکم کی قوت،کردار وعمل کی طاقت، خوفِ الٰہی کا زاد راہ اور آخرت کی فکر کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے۔ جب ہمارے پاس ایمان و یقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار و عمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگئے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا، اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاح معاشرہ کا باضابطہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیرنہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہمارے مصلحین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے وقت ان باتوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں کہ سب سے پہلے ایمان کی مضبوطی پر دھیان دیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح (نیک عمل) کی جانب لوگوں کو راغب کریں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوف الٰہی و خشیّتِ ربّانی نیز فکرِ آخرت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس لیے کہ اگر کسی بھی مسلمان کے اندر یہ چیزیں پیدا ہوجائیں تو وہ از خود اوامرِ شرعیہ کا عامل اور منہیات سے پرہیز کرنے کا خوگر ہو جائے گا۔دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
<[email protected]>
������������������������