اسد مرزا
موجودہ دور میں انفارمیشن ٹکنالوجی، موبائل ٹکنالوجی اور آرٹی فیشیل انٹلی جینس(AI) یعنی کہ مصنوعی ذہانت کس طرح سے ہماری زندگی کے مختلف شعبۂ حیات پر اپنا اثر رقم کررہی ہے اس کے منفی اثرات کی تفصیل ایک حالیہ رپورٹ میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ دنیا کے 30بڑے عالمی میڈیا اداروں جس میں مختلف اخبارات جیسے کہ دی گارڈین، ڈیر اسپیگل، ہاریٹز، ریڈیو فرانس کے رپورٹروں کی ایک ٹیم ’اسٹوری کلرز‘ کے نام سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھے، جسے ’فوربیڈن اسٹوریز‘ نامی عالمی میڈیا تنظیم کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، جو کہ مختلف تحقیقاتی مہم چلاتی ہے۔
اطلاع کے مطابق اسرائیل میں قائم ایک کمپنی جو کہ اپنے آپ کو کمپنی نہیں کہتی ہے بلکہ غیر رسمی طور پر اپنے آپ کو ’’ٹیم ہورگے‘‘ (Team Jorge) بتاتی ہے، جس کی سربراہی تال حنان نامی ایک شخص کرتا ہے ، جو پہلے اسرائیلی اسپیشل فورسز کے آپریٹو کے طور پر کام کرتا تھااور جو مبینہ طور پر مختلف ملکوں میں ہونے والے انتخابات کا رخ کسی ایک خاص جماعت کے حق میں موڑنے کا کام کرتی ہے۔ اس ٹیم کے دیگر ممبران بھی پہلے اسرائیلی اسپیشل فورسیز سے منسلک رہ چکے ہیں، اور وہ کمپیوٹر، میڈیا اور نفسیاتی ماہرین ہونے کے علاوہ آرٹی فیشیل انٹلی جینس کے بھی ماہر ہیں۔ تال حنان کا دعویٰ ہے کہ اس کی ٹیم نے اب تک 33 ملکوں میں سے جن میں سے اکثر یوروپ، افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے کام کیا ہے۔اور اب تک کی 33 مہموں میں سے 27 مہم میں وہ کامیاب رہے ہیںیعنی کہ ایسی حکومت بنوانے میں جسے عوام نہیں چاہتے تھے۔ اس کام کے لیے ان کی ٹیم 6 سے 15ملین یورو لیتی تھی۔
صحافیوں کی ٹیم نے تال حنان کے ساتھ اپنی مختلف ملاقاتوں کی بڑی مہارت سے خفیہ ریکارڈنگ کی جسے دی گارڈین نے بڑی تفصیل سے شائع کیا ہے۔ اپنے طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہوئے تال حنان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم مختلف سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس جیسے کہ ٹویٹر، لنکڈ ان، فیس بک، ٹیلی گرام، جی میل، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر ہزاروں جعلی سوشل میڈیا پروفائلز بناتی ہے۔ یہ جعلی اکاؤنٹس، جو مبینہ طور پر حقیقی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پروفائل پکچرز استعمال کرتے تھے، کریڈٹ کارڈز سے بھی منسلک تھے اور ان کا استعمال ہزاروں بوٹس یعنی کہ فرضی اکاؤنٹس بنانے کے لیے کیا جا سکتا تھا جو بڑے پیمانے پر پیغامات بھیجتے تھے۔
دی گارڈین کے حوالے سے ایک خفیہ طور پر فلمائی گئی میٹنگ میں حنان اس بات پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس وقت ان کی ٹیم یونان اور متحدہ عرب امارات میں دو دیگر ٹیموں کے علاوہ افریقہ میں ایک الیکشن میں شامل ہے۔ حنان نے مبینہ طور پر خفیہ رپورٹرز کے سامنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ انتخابی مہم چلانے والوں کی ای میل اور میسنجر سروسز کو ہیک کر سکتا ہے اور ان کے رابطوں کو پیغامات بھیج سکتا ہے جو ان کی مہم کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
تفتیش کاروں نے پایا کہ ٹیم ہورگے کے ٹیک ٹول باکس میں’’اثر و رسوخ کا ایک پلیٹ فارم‘‘ شامل ہے جسے Advanced Impact Media Solutions یا AIMS کہا جاتا ہے، جسے حنان نے 10 سے زیادہ ممالک کی انٹیلی جنس سروسیز کو فروخت کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے یعنی کہ ان ملکوں کی انٹیلی جنس سروسیز AIMS کا استعمال کرتے ہوئے اپنے شہریوں پر نظر رکھنے میں اور زیادہ کامیاب ہوسکیں گی۔
AIMS سافٹ ویئر کو سوشل میڈیا مہمات کے لیے قائل کرنے والے اوتار بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اوتار، یا بوٹس یعنی کہ مصنوعی پروفائلز ، حقیقی لوگوں کی چوری شدہ تصاویر استعمال کرتے ہیں، کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کام کرسکتے ہیں، اور کام کرنے کے لیے اور مالی اعانت حاصل کرنے کے لیے ایمیزون اور بٹ کوائن اکاؤنٹس سے بھی منسلک ہو سکتے ہیں۔ ان کی آن لائن ایک دیرینہ موجودگی بھی دکھائی دیتی ہے، بشمول Gmail اکاؤنٹس اور مشہور شخصیت کے یوٹیوب ویڈیوز پر تبصرے، تفتیش کاروں کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ حقیقی لوگ ہیں۔ اس حوالے سے حنان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے انسانی رویے کی نقل کرنے پر کامیابی سے انحصار کیا۔
رپورٹنگ پارٹنرز، لی مونڈے اور دی گارڈین کے ذریعے ریکارڈ کی گئی بات چیت کی تصدیق اور تجزیہ نے اوتاروں کے جھرمٹ کی نشاندہی کی جنھیں کہ حنان کی پاور پوائنٹ پرزنٹیشن میں دکھایا گیا کہ وہ کس طرح مربوط ٹویٹر مہمات کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ رپورٹرز کو AIMS سے متعلق 21 مہموں سے منسلک 1,700 سے زیادہ ٹویٹر اکاؤنٹس ملے، جن کے نیٹ ورکس نے دسیوں ہزار ٹویٹس تیار کی تھیں۔
گزشتہ دسمبر میں، خفیہ رپورٹرز کے ساتھ ذاتی ملاقات کے دوران، ٹیم ہورگے نے AIMS کی ایک نئی صلاحیت کو دکھایا: مخصوص کلیدی الفاظ، لہجے اور موضوع کا استعمال کرتے ہوئے جعلی خبریں بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے اوزار۔’ٹیم ہورگے‘ کے ارکان کی شناخت کو راز میں رکھا گیا تھا لیکن رپورٹرز کچھ کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ۔
حنان نے اشارہ کیا کہ اس نے قانون کے مطابق “غیر ملکی ایجنٹ” کے طور پر رجسٹر نہ ہونے کے باوجود امریکہ میں لابنگ کی کارروائیاں کیں۔ اس نے کہا کہ اس نے کنسلٹنٹس اور کمپنیوں کے ذریعے کام کیا جو پہلے سے رجسٹرڈ ہیں، اور صحافیوں کو بتایا کہ اس نے حال ہی میں “موجودہ لابی گروپس” کے ساتھ ٹیم ہورگے کو فروغ دینے کے لیے Axiomatics کے نام سے ایک پبلک ریلیشن فرم امریکہ میں بھی قائم کی ہے، جو کہ اب امریکہ میں لابینگ اور انتخابات پر منفی اثرات مرتب کرنے کے کام باقاعدہ طور سے کرسکے گی۔
تحقیقاتی رپورٹرز کی طرف سے جو معلومات اکٹھی کی گئی ہیں وہ ایک پریشان کن حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، وہ یہ کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں اور وہ مستقبل میں بھی ہوں گے، جو ہمیشہ دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے تیار ہوں گے اور جمہوری اداروں کو پامال کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے ٹیکنالوجی کی ترقی میں ایک اور محاذ پر فتح کے طور پر دیکھیں گے اور اسے غیر اہم کہہ کر نظر انداز کر دیں گے یا ہم ایسی غیر قانونی اور ناپسندیدہ سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی تحریک شروع کریں گے جو ایک دن پورے عالمی جمہوری نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں؟اس سے قبل ہندوستان میں اس طریقے کی رپورٹیں ہمارے سامنے آئی ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ کس طرح سیاسی جماعتیں ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کے نتائج میں پھیر بدل کرسکتی ہیں، لیکن اس سارے پس منظر میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہمیں یہ موازنہ اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی میں کس حد تک شامل کرنا چاہتے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق سائنس دانوں نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ کہا جارہا ہے کہ اگلے دس سے بیس سال میں سائنس داں ایسے ربورٹ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کہ انسانوں کی طرح سوچ سمجھ کر کام کرسکیں گے۔ تو کیا ہم واقعی میں اس جگہ پہنچنا چاہتے ہیں، جہاں مشینیں مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانوں کا مقابلہ کرسکیں گی یا ہم تھوڑا رک کر ان کو اس جگہ روک دیں گے کہ وہ قدرت کے اصولوں کے خلاف نہ جاسکیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے:
www.asadmirza.in)