گھبرانے کی ضرورت نہیں : اسلامی تاریخ میں آج سے بڑھ کر ظالم وجابرخود مسلم حکمراں ہم پر مسلط ہوچکے ہیں ،خود اس ملک میں بھی ہماری امت اس طرح کے دسیوں ظالم اصحاب اقتدار کا سامنا کرچکی ہے اور اہل اسلام ہربار ایک نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں واپس آئے ہیں، ہمارے خلاف برے عزائم رکھنے والی یہی جماعت اس سے پہلے بھی اس ملک میں اقتدار میں آچکی ہے، آپ کہیں گے کہ پہلے وہ اکثریت میں نہیں تھے دوسرے کے تعاون سے حکومت میں آئے تھے اس لیے وہ اپنے برے عزائم کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے، لیکن اس مرتبہ خطرہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف دستوری اعتبار سے ترمیم کرکے مسائل پیداکریں اور یکساں سول کوڈوغیرہ نافذ کریں ۔آپ یقین رکھئے کہ یکساں سول کوڈ کے خود ان کے مذہب پر پڑنے والے مضرات سے جب ہم ان کے خیرخواہ بن کر ان کو آگاہ کریں گے تو یونیفارم سوال کوڈکے نفاذ کے نام سے جب حالات بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی تووہ ہمارے برادرانِ وطن جنہوں نے ان کو ووٹ دیا ہے خود اس کی مخالفت میں اور ان کے عزائم کو ناکام کرنے کے لیے ہمیں میدان میں نظر آئیںگے اور حکومت وقت کے برے مقاصد کی طرف بڑھتے قدم سے خود ہمارے ملک کا نظام اس طرح درہم برہم ہوجائے گا کہ خود ان کو اقتدار تک پہنچانے والے ان کے خلاف ہوجائیںگے۔
یوپی کے مایوس کن نتائج سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں اس لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نئی حکومت میں نظر آنے والے صرف چہرے بدلیں گے، اس کے پس ِپردہ انتظامی طور پر اعلی منصب پر فائز رہ کر جو ذہنیت اسلام کے خلاف کام کررہی تھی، پہلے بھی وہی لوگ تھے اور اب بھی وہی لوگ ہوںگے جیسا کہ مرکز میں ہوا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ کچھ دنوں پہلے ہماری ملک کے فوج کے سپہ سالار ریٹائرئمنٹ کے بعد بھگوا جماعت میں شامل ہوئے اور اس کے ٹکٹ پر جیت کر پارلیمان میں پہنچے ، عدالت کے کئی ججس اور I.A.Sافسران نے اپنی سرکاری ملازمت کے اختتام پر کھلم کھلا ان کی حمایت کا اعلان کیا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام سے نفرت رکھنے والی اس جماعت کو حکومت میں آنے سے اپنے نظریات کے نفاذ میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوئی ہے، یہ کام تو وہ حکومت کے بڑے منصب پر فائز اپنے نمائندوں سے بہت پہلے ہی سے کررہے تھے، مطلب یہ ہوا کہ پہلے نفاق کے ساتھ کسی اورحکمراں جماعت کے واسطے سے یہی کام ہورہاتھااور اب کھل کر اسلام دشمنی کے اظہارکے ساتھ یہ لوگ برسرِاقتدارآئے ہیں،ان دونوں پہلے اور موجودہ حکمراں طبقات کی نکیل جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ،اس میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے ،پالیسی کہیں بنتی ہے اس کا صرف نفاذ ہندوستان میں ہوتاہے ،پون صدی پہلے آر یس یس کی تاسیس کے بعد جوخاموش منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف ہوئی تھی اور جس صبر وضبط کے ساتھ اس کے اثرات کے ظاہر ہونے کا انہوں نے انتظار کیا تھا، اس کا پھل آج ان کو ملاہے ، لیکن ہمیں اطمینان ہے کہ نفاق کی وجہ سے ہمارے لیے پہلے اس کامقابلہ مشکل تھا ، اب اس کا مقابلہ ہمارے لیے آسان ہے ، پہلے ہم غفلت میں تھے، اب ہم ہوش میں آگئے ہیں ، پہلے ہم خوش فہمی میں تھے ، اب حقیقت سے ہم واقف ہوچکے ہیں۔
انصاف کی شمعیں بجھی نہیں: ادھر کئی مہینوں سے عدالت عالیہ سے الحمدللہ مسلم نوجوان بری ہورہے ہیں،آپ کو یاد ہوگا کہ اکشردھام مندر پر فدائی حملے میںحملہ آورسمیت ۳۳/افراد ہلاک اور ۸۸/ زخمی ہوئے تھے،اس کے بعد دہشت گردی مخالف دستے (ATS)نے معصوم بے قصور مسلم نوجوانوں کو پکڑا،ان پر فرد جرم عائد کیاگیااور اقرار جرم کے لیے ان کو اذیت ناک مراحل سے گذاراگیا،جس کے بعد مقامی عدالت نے ان کو پھانسی کی سزاسنائی، ہائی کورٹ نے بھی اس کی توثیق کی ،معاملہ سپریم کورٹ تک گیا، اس پورے واقعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جس انداز سے تبصرہ کیا ہے اسے ٹائمس آف انڈیانے ۲/جون ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں جگہ دی ہے ، اس سے مسلمانانِ ہند کے لیے امید کی آخری کرن نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں میں اب بھی انصاف پسندبرادران وطن موجود ہیں جو عدل وانصاف کے پیمانوں سے کسی بھی مصالحت کے لیے تیار نہیںہیں،یادرہے کہ یہ فیصلہ جس دن سنایاگیااسی دن مرکز میں بھگوا جماعت کی فتح کا اعلان ہواتھا،سپریم کورٹ نے فیصلے میں کسی کو نہیں بخشابلکہ ذیلی عدالتوں کو یہ کہتے ہوئے لتاڑا کہ اقبالیہ بیانات میں جس طرح کے تضادات موجود ہیں، ان سے ظاہر ہوتاہے کہ اقبال جرم رضاکارانہ نہیں تھا، پولیس اور استغاثہ کی خامیوں پر انگلی اٹھاتے ہوئے عدالت نے سوال اٹھایا کہ ونجارا کوپوٹاکی خصوصی عدالت سمیت ذیلی عدالتوں میں گواہ کی حیثیت سے جرح کے لیے کیوں نہیں پیش کیاگیا جس نے کیس حل کرنے میں غیرمعمولی تیزی دکھائی؟اس طرح نیشنل سیکوریٹی گارڈ کے بریگیڈیئرراج سیتاپتی کابیان کیوںنہیں ریکارڈ کیا گیاجس کی موجودگی میں پولیس نے فدائین کی پتلونوں سے اردوخطوط برآمدکئے جن میں فسادات کا بدلہ لینے کے لیے اکسایاگیاتھا،تعجب کی بات یہ ہے کہ خون آلود پتلونوں سے حاصل کئے گئے خطوط بے حد اچھی حالت میں تھے،کہیں سے تُڑے مڑے یاپھٹے ہوئے تھے نہ ہی ان پر خون کاداغ یا نشان تھا، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کیس ذیلی عدالت میں ہی دم توڑ دیتااگر اس وقت کے وزیر داخلہ دماغ کا استعمال کرتے ہوئے پوٹانہ لگاتے،یہ ایک غلط اورحکومت کی بدنیتی پر مبنی فیصلہ تھا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس ملک میں گئے گذرے ان حالات میں بھی مسلمانوں کے لیے امید کی شمعیں جلائے ہوئے ہیں کہ انصاف کی قدریں کمزور ضرورہوئی ہیںختم نہیں ہوئی ہیں، عدل کی شمعیں ٹمٹمارہی ہیں، مگر بجھی نہیں ہیں۔فتح ہمارے لیے ہی مقدر ہے، سروخروئی ہمارے لیے لکھ دی گئی ہے بشرطیکہ ہم اپنے دعوتی فریضہ کو انجام دیں اور اس ملک کے باشندوں کی ہمیشہ کی اخروی کامیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
گھبرانے کی ضرورت نہیں : اسلامی تاریخ میں آج سے بڑھ کر ظالم و جابرخود مسلم حکمراں ہم پر مسلط ہوچکے ہیں ، خود اس ملک میں بھی ہماری امت اس طرح کے دسیوں ظالم اصحاب اقتدار کا سامنا کرچکی ہے اور اہل اسلام ہربار ایک نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں واپس آئے ہیں، ہمارے خلاف برے عزائم رکھنے والی یہی جماعت اس سے پہلے بھی اس ملک میں اقتدار میں آچکی ہے، آپ کہیں گے کہ پہلے وہ اکثریت میں نہیں تھے دوسرے کے تعاون سے حکومت میں آئے تھے اس لیے وہ اپنے برے عزائم کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے، لیکن اس مرتبہ خطرہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف دستوری اعتبار سے ترمیم کرکے مسائل پیداکریں اور یکساں سول کوڈوغیرہ نافذ کریں ۔