مرد بھی گھریلو تشدّدکے شکار ! کڑواسچ

جبین نازاں

آپ یہ موضوع دیکھ کر حیرت زدہ یا ششدر ضرور ہوئے ہوں گے۔ غالب امکان کہ آپ اسے لطیفہ یا مزاح سمجھ کر پڑھنا چاہیں گے ۔لیکن یہ آج کی ایسی حقیقت ہے جس کے متعلق پچھلی صدیوں میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ مستقبل میں کبھی جنوبی ایشیا کے پدری نظام کے حامل ممالک میں مرد حضرات ہی گھریلو تشد د کے شکار ہوں گے۔ یہ سننے میں عجیب لگ رہا ہے ، لیکن یہ ناقابل یقین نہیں۔ ‘جب کہ صدیوں سے گھریلو تشدد کی شکار خواتین بنائی جاتی رہی ہیں ، ایک طبقہ یہ مان چکا تھا کہ عورتیں پیدا ہی اس لیے ہوئی ہیںکہ ان پر ظلم و ستم روا رکھا جائے ۔اس طبقے کی عورتیں نصیب کا لکھا ‘ سمجھ کر صبر آزما رہیں ،کیوں کہ زمانے سے لڑا جھگڑا جاسکتا ہے، لیکن نصیب سے کون لڑے؟
گھریلو تشدد یا استحصال برصغیر کے عام خاندان میں ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ متمول خاندانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔اس سے زیادہ تعجب میں ڈالنے والی بات یہ کہ غیر ممالک(مثلاً، برطانیہ، امریکہ ، فرانس وغیرہ ) میں بس چکے برصغیر کے خاندانوں میں بھی روز مرہ رونما ہونے والے دیگر نامناسب واقعات میں سے ایک واقعہ بن کر رہ گیا ہے۔برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ’’مین کائنڈ‘‘کی رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے تین متاثرین میں ایک مرد ہوتا ہے ۔جن کا جذباتی ، جسمانی اور معاشی طور پر استحصال کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کا ماننا کہ مردوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ مردوں کا یہ طبقہ خاموشی سے ظلم تشدد برداشت کرتے ہوئے جہاں فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔لیکن گھر سے باہر اپنی بپتاکہنا یا سنانا اچھا نہیں سمجھتا ،حتیٰ کہ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ شئیر کرنے میں خوف ، جھجک اور قباحت محسوس کرتا ہے ۔کیوں کہ وہ معاشرے یا دوستوں میں مذاق بننا نہیں چاہتا،جو ان کی مردانگی پہ انگلی اٹھنے کا باعث بن سکتا ہے۔
2004ء میں وجود میں آئی ایک تنظیم جو خواتین کے ہاتھوں مردوں کے استحصال کا اندراج کیا کرتی ہے۔ مختصر مدت یعنی کہ سات سال بعد 806 سے بڑھ کر 9408 تک تعداد پہنچ جاتی ہے۔ یہ تعداد ہمیں تشویش میں مبتلا کرتی ہے کہ کس قدر تیزی سے متاثر مردوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔
حالات کی تشویشناک حد تک اضافے کو دیکھتے ہوئےملک برطانیہ میں “MenReachinc out “نام کی تنظیم قائم کی گئی ہے۔ یہ تنظیم متاثر مردوں کی مدد کے لیے ایک سروس شروع کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا کہ شروع میں میرے پاس ہر ماہ 20 مردوں کی شکایات آئیں ۔چند مہینے بعد شکایات میں اضافہ ہوکر 50، 60 تک پہنچ گئی – ۔اس تنظیم کے تین مراحل ہوا کرتے ہیں، پہلا مرحلہ ہیلپ نمبر کی مدد سے شکایت درج کی جاتی ہے دوسرا مرحلہ گھر کی خواتین اور متاثر مرد کو ایک ساتھ بلایا جاتا ہے پھر آپس میں صلح کروانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔کوئی معاملہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرلیتا ہے، افہام و تفہیم کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں، صلح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ تب آخری اور تیسرا مرحلہ ظالم بیوی سے شوہر کو نجات دلانے کی راہ اختیار کرنے کامشورہ ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس تنظیم کے ذریعے ان شوہر کی معاونت بھی کی جاتی ہے۔ ہندستان میں مرد پہ ہورہے تشدد کا تناسب عورتوں پہ ہورہے تشدد سے کم نہیں ہے۔ ‘ ڈیلی ویمن کمیشن ‘ تنظیم کے مطابق چوں کہ ہندستان میں مرد پہ ہورہے گھریلو تشدد کے متعلق کوئی قانون نہیں ۔اس لیے تعداد کا اندارج ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ کیوں کہ تشدد کے شکار مرد کی اکثریت شکایت درج کروانے نہیں جاتے ۔جس کی متعدد وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
بعض مرد اسے اپنے وقار کی توہین سمجھتے ہیںکہ یہ بات گھر سے نکل کر باہر تک جائے گی ۔جو ہماری ہی ذلت ورسوائی کا سبب بنے گی ۔دوسری وجہ یہ کہ ان کے لیے باضابطہ کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے ۔ Demostic violence کے تحت جوقوانین بنائے گئے ، اس کی ساری دفعات خواتین کو تحفظ اور طاقت عطا کرتی ہے ۔
لہٰذا وہ یہ لڑائی قانونی طور سے نہیں لڑ سکتے ۔تیسری اہم وجہ چند مرد کی شکایات کا حشر دیکھ اور پڑھ چکے ہوتے ہیں ۔واقعہ یہ کہ جب مرد خود پہ ہونے والے ظلم وستم کی شکایت لے کر تھانہ پہنچتے ہیں ، پہلے تو پولیس اہمیت نہیں دیتی ، اگر کبھی صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے دھیان دیتی بھی ہے تو اس کے گھر والوں (بیوی) کو بلاکر تفتیش کرنے کی بجائے ،بیوی کی طرف سے شوہر پر مقدمہ کرا دیتی ہے ۔ یہ رپورٹ ہندستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’سیو انڈین فیملی‘‘ ( save Indian family) کے اعداد شمار اور تحقیق کی روشنی میں بیان کررہی ہوں ۔
انڈین ویمن کورٹ 323 کے مطابق متاثر مرد کو چند حقوق مہیا کرتی ہے ، لیکن مرد حضرات پولیس اسٹیشن جانے سے کتراتے ہیں ۔اس لیے کہ گھر میں تنہا ہوچکا مرد کورٹ میں بیوی بچوں اور پولیس کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے کہ وہ بیوی بچوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ کا سامنا کرے گویا کہ متاثر مرد اس عمل کو عریاں ہونے کے مترادف سمجھتا ہے ۔لہٰذااللہ کی عدالت میں اپنا کیس فائل کرتے ہوئے بے بس مظلوم مالک حقیقی سے جا ملتاہے۔گویا کہ اس مقولے پہ عمل کرتا ہے، جس کا کوئی نہیں ہوتا ، اس کا اللہ ہوتا ہے۔
مشاہدہ کے تناظر میں مرد پہ گھریلوں تشدد واستحصال کی وجوہات زیادہ نہیں عموماً دوچار ہی ہوا کرتی ہیں ۔پہلی وجہ معاشی اعتبار سے مرد کا کمزور ہونا ۔ جسے ایک صدی قبل اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ’’مفلسی مرد کا اعتبار کھوتی ہے ‘‘ خواہ مرد جتنا شریف ہو ، لیکن بیوی کی نظر میں مفلس شوہر کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔شادی کے دو چار سال بعد بیوی کی طرف سے طعنہ تشنع شروع ہوجاتا ہے ، اس کے بعد پھر بات بے بات پہ لڑنا جھگڑنا ، اور پھر ذہنی جسمانی ایذا رسانی تک نوبت آجاتی ہے۔ خیر اکبر الہ آبادی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا، جسے مساوات کا عہد کہا جائے گا۔ متمول اور شریف خاندان کی خواتین بھی اپنے شوہر کو ظلم و استبداد کی راہوں سے گزارا کریں گی ، اس روشن خیالی اور مساوات پہ اکبر الہ آبادی کیا کہتے کیا سوچتے،وہ بعید از قیاس نہیں ۔
دوسری قسم کے وہ شوہر ہوتے ہیں ۔جن کی بیویاں تعلیم یافتہ خوشحال گھرانے کی( بعض نوکری پیشہ بھی ) ہوا کرتی ہیں۔ شوہر ان کی بہ نسبت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور معاشی طور خوشحال نہیں ہوتے ۔وہ سسرال کی دولت پہ یا بیوی کی تنخواہ پہ گزارہ کرنا چاہتے ہیں یا گزارہ کررہے ہوتے ہیں ۔ ان کی بیویاں ظاہر سی بات ہے ،گھر میں حاکم بن کر ہی رہیں گی ۔شوہر کو زر خرید غلام تصور کرتی ہیں ۔لہٰذا ان کے ساتھ سلوک بھی غلاموں جیسا کیا کرتی ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ بیوی کے مائیکے والوں کی مداخلت اہم رول نبھاتی ہے ، مائیکے والوں میں سب سے بڑا کردار بیوی کی ماں کا ہوتا ہے ۔وہی ماں جس کا نظریہ اپنی بہو کے لیے ،اس کے برعکس ہوتا ہے۔وہ چاہتی ہیں کہ میری بہو اپنے شوہر کی ‘پتی ورتا ‘بیوی بن کر رہے اور ساس سسر کی خدمت گزار بہو ۔ لیکن بیٹی سسرال میں حاکم بن کر رہے شوہر زن مرید ہو، ساس سسر پہ میری بیٹی کی حکمرانی ہو ۔یہ مائیں پچھلی صدی کی مظلوم بہو ‘کی ساس کا دوسرا روپ ہیں ۔
تیسرے قسم کے شوہر وہ ہوتے ہیں، جن کی شادیاں اپنی پسند کی ہوتی ہیں ۔چوں کہ یہ شوہر شادی کے قبل ہی ان کی زلفوں کے اسیر ہوچکے ہوتے ہیں،لہٰذا شادی بعد بےدام غلام بن جاتے ہیں۔ گھر یلو بیوی( ہاؤس وائف) اپنے رشتے داروں کو اہمیت دینا شروع کردیتی ہے ۔ساس پہ ماں ، نند پہ بہن ، سسر پہ باپ کو فوقیت دینے لگتی ہے۔ شوہر چوں کہ زن مرید ہوچکا ہوتا ہے، لہٰذا مرشد بیوی کا ہر عمل اسے درست لگتا ہے اور جب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہوتا ہے، پھر بیوی آوٹ آف کنٹرول ہوچکی ہوتی ہے۔گھر میں کبھی تناؤ، گھٹن ‘ کبھی چیخ و پکار غرض کہ گھر میں امن و سکون کی بجائے دن رات اُٹھا پٹک ، بے ہنگم چیخ و پکار، خوشیوں کا شیرازہ بکھر ہوچکا ہوتا ہے۔ اپنی پسند کی ہونے والی شادی کا یہ انجام ہر طبقے میں پایا جاتا ہے، اگر شوہر اور بیوی اتفاق سے ملازمت پیشہ ہوتے ،وہاں بھی یہ بدنظمی پائی جاتی ہے۔ شوہر کو شکایت ہوتی ہے کہ بیوی میرا خیال نہیں رکھتی ۔مثلاً میں گھر آؤں تو بیوی میرا ویسا ہی استقبال کرے کہ جس طرح ایک ہاوس وائف کیا کرتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ملازمت پیشہ بیوی بھی ایک انسان ہے، اسے بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے ۔دوہری ذمے داری ادا کررہی ہوتی ہے ۔تہری چوتھی ذمے داریوں کی ہمت اور توانائیاں گنوا چکی ہوتی ہے ۔
بیوی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے ، اس مقام سے بیوی اور شوہر کے درمیان میں تصادم شروع ہوتا ہےاور معاملات بڑھ کر اکثر علاحدگی پہ منتج ہوتا ہے ۔کیوں کہ مصالحت کے جب دونوں فریق منکر ہوجائیں تو پھر علیحدگی آخری راستہ بچ جاتا ہے ۔یہی وجہ کہ پچھلے بیس پچیس سالوں میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں اسے سائیڈ افیکٹ ہی کہا جاسکتا ہے۔کوئی ضروری نہیں کہ ہر تعلیم یافتہ انسان ، باشعور، بالغ نظر ، دانشمند اور مثبت فکر کا حامل بھی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں لڑی جانے والی سب سے زیادہ جنگ تعلیم یافتہ انسان نے لڑی ہے، وجوہات کچھ بھی رہی ہوں ۔
بسیار تحقیق کے بعد یہ تین اہم وجہیں سامنے آئیں،دیگر چند وجوہات کے علاوہ ۔
ان تمام اقسام میں ایک پہلو مشترک نظر آتا ہے ،وہ یہ کہ ‘ہٹلر بیویاں، اپنےبچوں کو اپنا طرفدار بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ، بچوں کو کبھی ڈھال یا ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔بہت کم ایک آدھ واقعہ یہ دیکھنے میں آیا کہ اس صورت حال میں بچے والد کا ساتھ دیتے نظر آئے ہوں۔یہی وجہ کہ مرد گھر کا حاکم ہوتے بھی محکوم اور مظلوم بن کر رہ جاتا ہے۔
مرد کو چاہئے کہ بیوی کے سامنے اتنا نہ جھکے کہ بیوی’’ مجازی خدا‘‘ بن جائے ۔
Jabeen Nazan [email protected]