محفوظ سفر کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟

 

مڑواہ کشتواڑ میں حالیہ المناک سڑک حادثہ میں آٹھ انسانی جانوں کے اتلاف نے ایک بار پھر خطہ چناب سمیت پورے جموںوکشمیر میں سڑک حادثات کو فوکس میں لایاہے اور آج کل ان حادثات پر خوب چرچا ہورہی ہے ۔سرکار ی اعدادوشمار کے مطابق خطہ چناب کے ضلع کشتواڑ میںرواں سال کے دوران  امسال 92 حادثات رونما ہوئے ہیں جن میں 33 افراد اپنی متاع حیات سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 125لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ان حادثات  نے ایک بار پھر مرکز کے زیر انتظام اس علاقہ میںسڑک حادثات ک اندوہناکی کو اجاگر کردیا ہے۔عملی طور پرجموںوکشمیر کی سڑکیں موت کا کنواں بنتی چلی جارہی ہے ۔ اب سڑک حادثات اس تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں کہ حساب رکھ پانا مشکل ہوچکا ہے ۔ محکمہ ٹریفک کے مطابق رواںسال کے ستمبر مہینے تک جموںوکشمیرکے مختلف علاقوں میں 4613سڑک حادثات میں619افرادلقمہ اجل بن گئے ہیں جبکہ 6361افرادزخمی ہوگئے ہیں۔دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں شاہراہیں دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہیں۔ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ٹرانسپورٹ و ٹریفک محکموںکا غیر متحرک وغیرفعال ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔ اگر کشتواڑ ضلع کی ہی بات کریں تو اندازہ لگائیں کہ ضلع میں200سے زائد اندروبی و بیرونی سڑکیں ہیں جن پر اوسطاً 20ہزار کے قریب نجی و کمرشل گاڑیاں روزانہ دوڑتی ہیں لیکن نہ ٹرانسپورٹ محکمہ کے پاس عملہ دستیاب ہے اور نہ ہی ٹریفک محکمہ کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ اتنے زیادہ ٹریفک کے دبائو کو سنبھالاجاسکے۔اس وقت اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ دفتر کشتواڑمیں ایک اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ آفیسر،ایک انسپکٹر ،2 کلرک و ایک این وائی سی رضاکارموتعینات ہے جنہیں دفتری کام کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی فٹنس ، ٹرایل، چیکنگ و دیگر کام بھی دیکھنے پڑتے ہیں جسکے سبب ضلع کے اندرونی مقامات پر جانا ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے ۔اسی طرح اگر ٹریفک محکمہ کی بات کی جائے تو ضلع کشتواڑ میں محکمہ ٹریفک کے محض 35 اہلکاراس پورے ٹریفک کی نگرانی پر مامور ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ضلع میں ٹریفک عملہ کی نگرانی کیلئے ڈی ٹی آئی سرے سے ہی تعینات نہیں ہے اور اسکا چارج ایس او کوسونپاگیا ہے جبکہ ضلع میں دو ایس او ٹریفک ،ایک اے ایس آئی، ایک حوالدار،تین سلیکشن گریڈکانسٹبل و26ایس پی او تعینات ہیں جن پر ضلع کشتواڑ کا ٹریفک نظام منحصرہے۔جب عملہ کا ایسا حال ہو تو سبھی سڑکوں پر گاڑیوں کی چیکنگ و اوورلوڈنگ چیک کرنا ناممکن بن جاتا ہے۔رہی سہی کسر سڑکوں کی خستہ حالی ، ڈارئیوروں کی لاپرواہی، ناتجربہ کاری، ناکارہ گاڑیاں و کریش بیرئر کی عدم دستیابی پورا کرتے ہیں۔ضلع کے اندر نوے فیصد سڑکیں ایسی ہیں جن پر کریش بیرئر موجود ہی نہیں ہیں جبکہ سبھی سڑکیں پہاڑوں سے ہوکرگزرتی ہیں۔ کشتواڑ جیسی حالت تقریباً ہر ضلع کی ہے ۔ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفرکو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے پیش نظر شاہراہوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے رہیں گے؟

۔۔