متاثرین کی دلجوئی عزت نفس پامال نہ کی جائے

حالیہ ایام میں کشمیر سے لیکر کشتواڑ اور پونچھ تک آتشزدگی کے واقعات میں بہت سے خاندان اپنی رہائش اور سامان سے محروم ہوگئے۔ کووڈ وبائی مرض کے نتیجہ میںہم پر جومعاشی بحران مسلط ہوگیا ہے ، اس سے لوگ پہلے ہی شدید دباؤ میں ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی خاندان اپنی اقامت گاہ سے محروم ہوجاتا ہے تو اس کی تکلیف بیان سے بالاتر ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کرکے مقامی انتظامیہ نے ایک عمدہ اقدام اٹھایا ہے۔ اس سے قبل بھی جب شدید برف باری کی وجہ سے کچھ مکانات کو نقصان پہنچا تھا تو متاثرہ افراد کے لئے کچھ امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس طرح کے اقدامات کو ہمیشہ اعتراف اور خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ متعلقہ عہدیداروں ، جبکہ ہم ان کے ایسے اقدامات کرنے پر ان کی تعریف کرتے ہیں ، کو بھی اپنے عملے کو ہدایت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ امداد واقعی مستحق کنبے تک بنا کسی تاخیر کے پہنچ جائے۔ اس عمل میں عہدیداروں کو یہ امداد حاصل کرنے والے لوگوں کی عزت نفس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ یہ لوگ مادی نقصان سے پہلے ہی تباہ ہوچکے ہوتے ہیں اور ہمیں فائلوں کو ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل پر چلاتے ہوئے ان کے احترام کو پامال نہیں کرنا چاہئے۔ مدد انسانی وقار کی قیمت پر نہیں آنی چاہئے بلکہ متاثرین کا وقار برقرار رکھتے ہوئے اگر مدد ہو تو مستحسن ہے۔
ضرورت اس امر ہے کہ انتظامیہ سے جڑے لوگ آتشزدگی ،برف یا کسی بھی ناگہانی آفت سے متاثرہ لوگوں کی دلجوئی کو کوئی خیرات نہ سمجھیں بلکہ اس کو اپنا فریضہ مانیں اور جب یہ فرض تصور کیاجائے تو یقینی طور پر انتہائی رازداری کے ساتھ متاثرین کی امداد بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور ان کی بازآبادکاری میں بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ہے۔
موجودہ جمہوری دور کی ریاست سے اس طرح کے سلوک کی امید نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ آج کی ریاست جوابدہ بھی ہے اور نظم و ضبط کی تابع بھی ۔آج کی ریاست فلاحی ریاست کا تصور لیکر آئی ہے جہاں آئے روز یہی دعوے کئے جاتے ہیں کہ ریاست لوگوں کی فلاح و بہود میں منہمک ہے ۔سرکار سے جڑے لوگ اسی ریاست کے کل پرزے ہوتے ہیں اور جب کل پرزے درست سمت میںاپنی مفوضہ ذمہ داریاں انجام دیں تو ریاست کا سفر بھی صحیح سمت میں جاری رہے گا لیکن جب یہی کل پرزے راہ سے بھٹک کر اقدار کو فراموش کریں اور ضرورتمندوں کی امداد کو بھی ذاتی مفادات سے جوڑ دیںتوریاست کی جو خیالی شاندار عمارت لوگوںکے تصور میں رچی بسی ہوتی ہے ،وہ پاش پاش ہونے لگتی ہے اور یوں ریاست اور رعایا کے درمیان ایک خلیج یا دراڑ پیدا ہوجاتی ہے جو آگے چل کربے پناہ مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوجائے گی اور رعایا یا اپنی عوام کیلئے پیش پیش ہی نہیں رہے گی بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ رعایا کے پسماندہ طبقہ جات اور مستحقین کی فوری اور بھرپور امداد ہو تاکہ اُنہیں اپنی عزت نفس کو اپنے ہاتھوں پامال کرتے ہوئے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔
آتشزدگی واقعات میں بے گھر ہونے والوں کو کتنی تکلیفیں پہنچتی ہیں، اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایسے تمام مواقع پر متاثرین کے ساتھ ہماری ہمدردی بڑھ جاتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ہمدردیاں ختم ہوجاتی ہیں۔جن لوگوں کو ایسے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اُنہیں بالآخر تن تنہا ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے چھوڑ دیاجاتا ہے۔یہاں ایک اور معیاری عمل یہ ہے کہ ہم حکام سے متاثرین کی مدد کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔حکام سائٹ کا دورہ کرتے ہیں اور یقین دہانیاں بھی کرتے ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کچھ مدد بھی کی جاتی ہے لیکن یہ کبھی بھی نقصان کی سطح کے مطابق نہیں ہوتاہے۔اور یہ بات قابل فہم بھی ہے، ان حدود کو دیکھتے ہوئے جن کے اندر متعلقہ حکام کام کرتے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا سماجی طریقہ کار ہے جہاں ہم ایسے متاثرین کی بحالی اس انداز میں کر سکتے ہیں جو مہذب، باعزت اور متاثرہ افراد کی ضروریات کے مطابق ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو اس مقصد کے لئے رقم عطیہ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے گروپس ہیں جو ایسے واقعات میں متاثر ہونے والے لوگوں کی مدد کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔اور ہمارے پاس اب کچھ بہت ہی مخلص اور پیشہ ور تنظیمیں ہیں، جو انسان دوستی کے شعبے میں ایک متاثر کن انداز میں کام کررہی ہیں۔
لیکن اس سب کے علاوہ، اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہماری تیاری وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ ہم مدد کرنے کی اپنی کوششوں میں عارضی ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو افراتفری کے ساتھ متحرک کرتے ہیں۔ہم ایسے معاملات میں لوگوں کی مدد کرنے کی اپنی کوشش کو ادارہ جاتی بنانے سے بہت دور ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں خیرات دینے کا جذبہ ہے، اور وہ خود بھی بہت سے مواقع پر، تو ہمیں اپنے اداروں کو کیسے بڑھانا ہے ، اس کیلئے جدید ترین طریقوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ساتھی احساس اور انسان دوستی کے اس عنصر کو انجام دے سکیں۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور متعلقہ سرکاری محکموں کے ساتھ فعال اور قانونی طور پر موثر روابط بھی استوار کر لیتے ہیں، تو ہم واقعی ان لوگوں کی تکالیف کو کم کر سکتے ہیں جنہیں قدرتی یا انسانی آفات میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔