ماں اولاد کے لئے بہترین رول ماڈل نصیحت آموز

مفتیہ ریشماں خانم

بچے کی عمدہ اور دین کے سانچے میں ڈھلی ہوئی پرورش کے لیے ماں کا دیندار ہونا ازحد ضروری ہے۔کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔لہٰذا،اگر ماں دیندار ہوگی تو وہ اپنی اولاد کو بھی دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرے گی۔بچہ اپنی ماں کی آغوش میں ہی سب سے پہلے آنکھیں کھولتا ہے اور پرورش پاتا ہے۔اس لیے ایک ماں کو چاہیے وہ دین کی مکمل پاسداری کرکے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم وتربیت دے اور بچے کی دینی پرورش کرے۔مثلاً جب بچہ بولنا شروع کرے تو ’’الله‘‘ اور’’محمد‘‘ کہنا سکھائے۔پھر اسے کلمہ شریف سکھائے۔کتاب حصن حصین میں لکھا ہے:’’جب بچہ بولنا شروع کرے تو سب سے پہلے کلمہ شریف لا الہ الا الله محمد الرسول اللہ سکھائے۔‘‘

اکثر عورتیں جب اپنے بچوں کو سُلاتی ہیں تو لوریا گاکر یا گانا وغیرہ گاکر سلاتی ہیں یا پھر قصے کہانی وغیرہ سنا کر سلاتی ہیں۔انہیں چاہیے کہ اس کی جگہ پر جب وہ اپنے بچوں کوسُلائیں تو درود پاک پڑھ کر اور تذکرہ انبیاء ومرسلین، صحابہ واولیاء کے ایسے واقعات جس سے بچے کے اندر ایمانی جذبہ پیدا ہو،سُنا کرسُلائے۔اس سے بچے کے دل ودماغ پر اچھا اثر پڑے گا۔ہمارے معاشرے کے بعض گھروں میں اسلامی بہنیں بچوں کو bye, tata, eye none وغیرہ کہنا سکھاتی ہیں۔ انہیں اولا ًیہ چاہیے کہ اپنے بچوں کو اسلامی شعار،اسلامی طریقے سکھائیں،اس کے عقیدے کو مضبوط بنائے۔الله کے حبیب کا نام لیں تاکہ آپ کے بچے کے دل میں عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا جذبہ پیدا ہو اور اس کو کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت وغیرہ سکھائے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

امام غزالیؒ تحریر فرماتے ہیں:بیٹا ماں باپ کے پاس الله کی امانت ہے،اس کا دل نفیس اور عمدہ گوھر و موتی ہے،جو موم کی طرح ہے۔نقش کو قبول کر لیتا ہے اور اس پر کوئی نقش موجود نہیں ہوتا، اگر تم اس میں نیکی کا بیج بوؤں گے تو اس سے دین اور دنیا کی نیک بختی کا ثمرہ حاصل ہوگا،اگر اس کے برعکس ہوگا تو بدبخت ہے جو کچھ وہ بُرا کام کرے گا، اس میں یہ بھی شریک ہوں گے۔‘‘الله پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:’’قو انفسکم واھلیکم نارا‘‘ اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ۔ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کے معیار کو سمجھائیں اور شریعت کے مطابق اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے ،کھانے، پینے،رہنے،سہنے غرض کے زندگی گزارنے کے تمام اطوار کو سنت رسول ؐ کے مطابق سکھائیں اور نیک وصالح لوگوں کی کہانیاں، انبیاء کرام کے واقعات سُنائے۔کردار صحابہ کرامؓ کے واقعات سُنائے۔کردار صحابہ کرام سے اپنی اولاد کو آگاہ کرے۔کتابوں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے۔اپنی اولاد کو بھی دینی کتابوں کے مطالعہ کی ترغیب دلائیں،یا خود ہی پڑھ کر سُنائیں اور ماں کو چاہیے کہ پنج وقتہ نماز کی پابند اور فرائص کے ساتھ دیگر نمازوں کا بھی اہتمام کرے۔جتنی زیادہ نمازوں اور سجدوں کی کثرت ہوگی اس کا دل بھی نورانی ہوگا،چہرہ بھی نورانی ہوگا اور الله تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوگی اور اولاد بھی ایسے ہی اثر قبول کرے گی، کیونکہ جب ماں نمازی ہوگی اور نماز کی پابند ہوگی تو انشاء الله اس کی اولاد بھی نمازی ہوگی۔ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی خواتین خود تو نماز نہیں پڑھتی ہیں لیکن اپنی اولاد کو نماز کا پابند اور نمازی بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔میں کہتی ہوں کہ اگر ماں نمازی نہیں ہوگی تو اولاد نمازی کیسے ہو سکتی ہے۔اس لئے ماں کو چاہیے کہ وہ خود نماز پڑھنے کا اہتمام کرے تو اس کی اولاد بھی جلد اثر قبول کرے گی۔جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو اس کو نماز پڑھنے کا حکم دے۔ تاکہ نماز سے محبت اور خدا سے قربت اس کے سینے میں پیدا ہو جائے ۔ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں اپنی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کے لیے فکر مند ہوں۔خاص طور پر دینی تعلیم کے لیے فکر مند ہوں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ ماں خود دیندار ہوگی۔

ایک اچھی اور دیندار خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے جھوٹ بولنے کی بری اور سچ کی فضیلت کو بیان کرے اور اپنی اولاد کو حرام وحلال کی تعریف اور اور اس کے امتیازات بتائے۔شاعر مشرق علامہ اقبال کی والدہ کے بارے میں مزکور ہے:جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تو ان کی نیک سیرت والدہ نے ایک بکری منگواکر گھر میں رکھ لی،ان کے شوہر کے لئے یہ امر تعجب خیز تھا۔اس لئے انہوں نے ان سے پوچھا بکری منگوانے کا کیا مقصد ہے؟اس پر ام اقبال نے جو جواب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے بولیں:’’آپ کی آمدنی مجھے مشکوک نظر آتی ہے، اس لیے میں اپنے دودھ سے اپنے بچے کی پرورش نہیں کروں گی بلکہ اسے بکری کا دودھ پلایا کروں گی،میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کے جسم میں ذرا سی بھی حرام غذا داخل ہو۔‘‘ یہ سن کر ان کے شوہر نے وہ پیشہ ترک کر دیا۔

پردہ اور حیا: عورت کو باحیا اور پردہ میں رہنے والا ہونا چاہیے۔یعنی عورت خود تو پردہ میں رہے اور ساتھ ہی پردہ کی تعلیم دینے والی ہو۔کیوں نہیں ،’’الحیاء شعبتہ من الایمان‘‘ اور الله تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اے محبوب! آپ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرما دیجئے کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں۔‘‘(ترمذی شریف)
حدیث پاک میں ہے۔حضرت ام سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ، سید عالم حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھیں۔حضرت عبد الله ابنِ مکتومؓ آگئے۔سید ِعالم صلی الله علیہ وسلم نے پردہ کرنے کا حکم فرما دیا۔اُنہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم تو بینا ہو۔(سچی حکایت)

ایک مرتبہ سرکارِ دو عالمؐ نے صحابہ کرام کے بھرے مجمع میں پوچھا عورت کے لیے سب سے بہترین چیز کیا ہے؟یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰؓ واپس آئے اور حضرت فاطمتہ الزہراؓ سے دریافت کیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا؟آپ نے فرمایا: عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ کسی مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اسے دیکھے۔تو پیارے آقاؐ نے ان کے جواب پر فرمایا:آخر بیٹی کس کی ہے۔(ترمذی شریف)

حضرت دحیہ قلبیؓ سے مروی ہے:رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی ملل آئی،آپ نے ایک ٹکڑا اس میں سے مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ کا اس میں سے _ اپنے لیے کُرتا بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دے دو کہ وہ دوپٹہ بنالے۔مگر اسے یہ جتا دینا کہ اس کے نیچے ایک کپڑا اور بنالے، تاکہ جسم کی ساخت اس سے نہ جھلکے۔(ابو داؤد شریف)آیت قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ہمیں اپنے تقدس،اپنی حرمت،اپنی عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ڈھنگ بتاتا ہے۔ایک باحیا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے،اپنی پارسائی اور عزت و ناموس کی حفاظت کرے اور اس پر داغ نہ آنے دے۔

مشورہ:میری اسکامی بہنوں سے گزارش ہے کہ خود متقیہ پرہیزگار بنیں اور اپنے لیے متقی پرہیز گار دیندار باشرع رشتوں کو اہمیت دیں اور اسلامی بھائیوں سے عرض ہے کہ وہ خود متقی و پرہیز گار دیندار بنیں اور اپنے لیے متقیہ پرہیزگار نیک سیرت شریکِ حیات کا انتخاب کرنے کی کوشش کریں۔دین کو فوقیت دیں دولت کو نہیں سیرت کو فوقیت دیں صورت کو نہیں۔
رابطہ۔ 9457644547
[email protected]>