قرآن کریم۔ غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں ! کلامِ الٰہی

میر حسین
دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف قسم کے نظام اور اصول پر مبنی حکومتوں کا نفاذ عمل میں لایا جاتا ہے جس کا ہدف ہوتا ہے کہ ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے زاویوں کے معیار کو برقرار اور متوازن رکھا جائے تاکہ اس ملک کا ہر شہری اطمینان اور پر سکون زندگی جی سکے ۔ اسی طرح کائنات کے نظام کے توازن اور معیار کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لئے دنیا کے صانع (خدا) نے بھی الگ الگ طریقے اور انداز کو پہلے ہی حتمی شکل سے نوازا ہے ۔ ہر زمانے کے تقاضے کے مطابق پیغمبروں کو آسمانی کتاب یا صحیفہ سمیت بہ طور ہادی بھیجنا اس ضمن میں ایک خوبصورت مثال ہے ۔ مقصد حیات اور اہداف خلقت کے اسی سلسلے کی آخری کڑی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید ہے ، جو رہتی دنیا تک ہر فرد بشر خواہ وہ کسی بھی ملک و ملت یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کے لئے حجت ، ایک بہترین نمونہ عمل ، راہ ہدایت اور نجات کا صحیح راستہ ہے۔
قرآن کریم کی طرف متوجہ اور دعوت دیتے ہوئے گویتھی کہتے ہیں ،’’اگرچہ ہم ہمیشہ قرآن سے منہ موڑ لیتے ہیں اور پہلے ہی مرحلہ میں اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ جلد ہی ہمیں اپنی طرف متوجہ اور حیران کر دیتا ہے اور آخر میں ہمیں جھکنے اور اسکا احترام کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔‘‘
 The influence of islam on medieval europe .
Quran et al..13..watt,montgomery
قرآن کریم نہ صرف مسلمانوں کی نظر میں ایک مقدس کتاب اور زندگی سے مربوط بہترین اصولوں کا مجموعہ ہے بلکہ غیر مسلمانوں کی کثیر تعداد بھی اس کتاب زندگی کا مطالعہ کرنے سے باز نہیں رہے بلکہ بہت سارے غیر مسلم افراد اسلام کو تسلیم کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔
اسلام اور قرآن کے خصوصیات گردانتے ہوئے فارمر ویب رقمطراز ہے،’’ اسلام خرافات سے خالی ،بنیادی اور اصلی امور پر مبنی فطرت کے عین مطابق قوانین کا ہونا ،دین اور ساینس کی جدائی کا قایل نہ ہونا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کامل دستورات کا موجود ہیں۔‘‘ اس بیان سے مسلمان ہوتے ہوئے میرا سر شرم سے جھکنے پر مجبور ہے کہ میں دعوائے ایمانی کے باوجود ان باتوں کو نہیں سمجھ پایا ہوں ، حالانکہ قرآن کریم ہر سو اور ہمیشہ میرے وجود کا ایک اٹوٹ انگ ہے ۔ جارج ویلس کہتے ہیں ،’’ قرآن ایک عملی ، اجتماعی ،تہذیبی ،اخلاقی اور تاریخی کتاب ہے ۔‘‘ اس جامع اظہار خیال سے اس بات میں  دو رائے نہیں ہیں کہ جارج نے قرآن کریم جیسے آسمانی کتاب کو بہ حسن و خوبی اچھی طرح سے سمجھا ہے ۔،جو ہم سب کے لئے کسی عظیم عبرت سے کم نہیں ہیں۔
دنیا کے سیاسی حالات میں اپنی قسمت آزمائی اور زور بازو لگاکر بہت ساری فتوحات اور فکری وسعت کے بعد سیاسی دنیا کے مشہور حاکم نیپولین بوناپارٹ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں قرآن پاک کے اصول اور ضابطے کو ہی انسانیت کی فلاح و بہبودی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ انسانی نسل کی بقا قرآں پاک کے نظام حیات میں ہے۔‘‘ آسمانی اور الاہی کتاب کی جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زندگی سے مربوط ہر شعبہ کو اس کتاب میں ملحوظ نظر رکھا گیا ہے، شاید ہی کوئی ایسا زاویہ حیات ہو، جس کے متعلق قرآن کریم میں قوانین کا برملا اظہار نہ ہوا ہو ۔ اسی اظہار خیال کے پیش نظر پروفیسر کارلائل کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک قرآن مجید میں خلوص و سچائی کا وصف ہر پہلو سے موجود ہے اور یہ بالکل سچ اور کھلی حقیقت ہے کہ اگر خوبی پیدا ہو سکتی ہے تو اسی سے ہو سکتی ہے۔‘‘چونکہ انسان فطری لحاظ سے حق ، سچائی ،ایمانداری اور دیگر مثبت اقدار انسانی کا حامی اور مطیع ہے لہذا غیر کلمہ گو  افراد کے قلم اور زبان سے ایسے دلنشین بیانات اور اظہار خیال و عقیدت کا برملا مظاہرہ کسی بھی لحاظ سے باعث حیرانی و سرگردانی نہیں ہونا چاہیے۔
قرآن کریم کی غیر معمولی قوت جذابیت اور فطری لطف و اثر کے زیر سایہ ہندوستان کی آزادی کے علمبردار اور سیاسی رہنما گاندھی جی نے بھی قران کریم کو الہامی کتاب تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کتاب انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی اس آسمانی کتاب نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا ۔ گو کہ اسکے اصل اطاعت گذاروں نے اس کتاب کے ساتھ بے تحاشا ظلم روا رکھا ہے تاہم غیر مسلم بشریت اس کتاب کی حمایت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لیو ٹالسٹائی رقمطراز ہے،’’قرآن کریم عالم انسانی کے لئے ایک بہترین رہبر ہے اگر صرف یہ کتاب دنیا کے سامنے ہوتی تو بھی یہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی ہے ۔‘‘
قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو عقل و برہان کی فطرت کی علمبردار ہے ۔ پروردگار عالم چونکہ بہترین حکمت اور علم سے لبریز ذات ہے لہذا محکم یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب آسمانی میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو سکتا کیونکہ نقص اسی چیز میں ہو سکتا ہے جسکا صانع خود ناقص ہو۔ اسی تکمیل  اور جامعیت کو مدنظر رکھ کر برطانوی تاریخ داں اور دانشور سر ولیم کہتے ہیں، ’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو واضح ترین منطقی دلائل سے لبریز ہے۔‘‘
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ہر دنیاوی اور اخروی زندگی سے مربوط چیز کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی جامعیت اور عقل پر مبنی دلایل کا اثر ہر ذی شعور انسان کو محسوس ہو رہا ہے ۔ عالم بشریت کی سب سے بڑی مشکل توحید اور خدا کی وحدانیت کی عدم معرفت ہے ۔ مذاہب ،اقوام ، مسالک وغیرہ کے امتیاز کا ایک اہم سبب پرچم توحید کے تلے یکجہتی کا تفکر نہ ہونا ہے ۔ دنیاوی ترقی ، پر امن ماحول اور اتحاد و اتفاق کی خاطر قرآن کریم کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس قدم کے لئے ایک طریقہ خالص اور تبلیغ ناب قران کی ضرورت ہے اور دوسرا اہم طریقہ مسلمانوں کی عملی دنیا ہے ۔ وحدانیت کے پرستار بننے کے لئے قرآن کی مضبوط رسی سے منسلک ہونا موجودہ دور کی ضرورت ہے ۔ مشہور مورخ گبن نے ان لفظوں میں توحید کے پیش نظر ہدیہ تبریک پیش کیا ہے،’’نظریہ توحید کو واضح لفظوں میں بیان کرنے والی اور دلوں میں توحید کا نقش بٹھانے والی عظیم کتاب قرآن مجید ہے ۔‘‘
وہ علوم جن سے کرہ ارض پر رہنے والے لوگوں نے برکات حاصل کرکے نہ صرف ارتقائی مراحل طے کیے بلکہ معنوی ترقی کی راہ میں مثبت کردار ادا کرنے والے علوم سے بھی قرآن مجید نے پردہ اٹھایا ہیں ۔ ان ہی علوم کی بنا پر قرآن کریم سے پوری دنیا نے  فیض حاصل کیا ۔ ان ہی فیوض ،برکات و علوم کو مد نظر رکھ کر فرانسیسی دانشور کرین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید سے مجھے بہت سارے علوم و حقائق کشف ہوئے جو طبیعی علوم ، صفائی ،طبی پر مکمل قابل تطبیق ہے۔
ان کلمات سے ایک بات کہنے میں ہچکچاہٹ کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ خدا کی نازل کردہ اس کتاب نے بشریت سے مربوط ترقی کی راہوں سے بھی آشنا کیا اور علوم معنوی کا تعارف بھی کرایا ۔ قرآن کریم کا نزول انسان اور انسانیت کی بلندی اور تکمیل کے لئے ہوا ۔ من و عن سے اس کتاب خدا پر عمل پیرا ہونے سے ہر فرد بشر خداداد صلاحیتوں سے لبریز ہوتا ہے اور ہر اعتبار سے اعتماد کا پیکر نظر آتا ہے ،رعب و دبدبہ اور بردباری کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔ شاید اس لئے تاریخی انقلابیت کے بانیان بھی اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ خدا نے اس کتاب میں ایک اثر اور جذابیت رکھی ہے ۔ ٹیگور رقمطراز ہے،’’وہ وقت دور نہیں جب قرآن اپنی مسلمہ صداقتوں اور روحانی کرشموں سے سب کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔‘‘
پروردگار عالم کی حکمت اور دانائی کا انداذہ لگانا صراحتاً ہم انسانوں کے بس کی بات ہی نہیں ہیں۔ صدیوں پہلے نازل کی گئی کتاب ہر زمانے میں رہنمائی کے فرائض بخوبی انجام دیتی ہے۔ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی دلیل کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ قرآن ہر زمان و مکاں میں تقاضوں کے عین مطابق راہیں فراہم کرتا ہے گویٹے کہتے ہیں،’’میں جب بھی قرآن دیکھتا ہوں یہ نیے نیے  راہیں کھولتا چلا جاتا ہے اس کتاب کی کشش اپنے پڑھنے والے کو آہستہ آہستہ کھینچتی ہے۔‘‘
قرآن کریم ایک لافانی کتاب ہے جو ہر اس فرد کو حیات بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہے  جو ہدایت کا متمنی و طلبگار ہو ‌۔ یہ ہماری بد بختی و عدم توفیقی ہے کہ ہم قرآن جیسی عظیم کتاب کے معتقد ہونے کے باوجود غیر شعوری اور پسماندگی کا شکار ہے ۔ اس لاچاری کے پس منظر میں مہجوریت قرآن کی دلیل پوشیدہ ہے ۔  فقط طاقوں اور رحلوں کی زینت بنا کر قرآن ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا بلکہ ہمارے وجود کو مجسمہ پیکر قرآن ہونا بہت ضروری ہے ۔ قرآن کو ساینس کی بنیادوں پر تولتے ہوے فرانس کے ڈاکٹر جرنی کہتے ہیں ،’’میں نے سارے ان قرآنی آیات کا مطالعہ کیا جو قدرتی سائنس ،طب ،ادویات وغیرہ کے شعبہ سے منسلک ہیں اور میں نے انہیں قدرتی سائنس کے قوانین کے عین مطابق پایا اور مجھے یقین تھا کہ خدا کے علاوہ ان اصولوں اور قوانین کو کوئی نہ جانتا تھا ،لہٰذا میں اس کتاب کا محکم اور مصمم معتقد ہوں ۔‘‘
Routledge,new religions in global perspective,193
 اس اظہار خیال سے قرآن کے جامع کتاب ہونے کا یقین کرنا آسان تر ہو جاتا ہے ۔ قرآن کریم کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے غیر تعصب رویہ اختیار کرنا بے حد ضروری ہے ۔ تعصب کی عینک لگا کر اصل بات سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ اسی بیان کے گرد اظہار خیال کرتے ہوئے مورس بکاے قلمبند کرتے ہیں،’’ مفصل مقصد اور غیر تعصبانہ مطالعہ کے بعد جدید علمی دور کے لحاظ سے قرآن کریم اور ساینس کے درمیان مضبوط ربط کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات بھی بے نقاب ہو جاتی ہے کہ نہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نا ہی کسی اور فرد میں آج کے علمی دور کے تقاضے کے مطابق ایسا مواد ہوتا ۔‘‘
) Theories of the world’s scholars ,on the  quran and Muhammad pbuh,32.
Nazbro,john ..quranic studies,251
قرآن کریم مختلف خصوصیات کی حامل ایک آسمانی کتاب ہے جس نے بشریت کے گوناگوں مسائل کے بارے میں وضاحت کی ہے ۔ اس کتاب کے حیران کن اثرات اور دنگ کرنے والے پوشیدہ خصایل میں سے ایک یہ ہے کہ ہر زمانہ قرآن کی تفسیر اپنے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے اور اصل کتابی صورت میں کوئی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوتی۔ والٹیر رقمطراز ہے ،’’اگر آپ پہلے سے آخر تک پورے قرآن کا مطالعہ کریں گے تو آپکو اس میں ایک بچگانہ لفظ بھی نہیں ملے گا ، قرآن در اصل اخلاقی نصیحتوں ،مذہبی ہدایات اور خدا کے سامنے ضروریات اور رازوں کا مجموعہ ہے ، دنیا کے لئے تشبیہات اور اور حوصلہ افزائی ہے ، اور خدا کے پیغمبروں کے تاریخ کا بیان ہے۔ ‘‘
Wensborough,john, ibid ,202
دنیا میں پاے جانے والے الگ الگ مذہبی کتابوں کے ماننے والوں کی تعداد میں کہیں یکسانیت نظر نہیں آتی ۔ فکری تضاد سے عاری لوگوں کی کثیر تعداد بڑے خوش و خرم طبیعت کے ساتھ الگ الگ  مذہبی کتابوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور ایک نتیجہ کو اخذ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ ان ہی دانشوروں میں ایک مغربی دانشور جے مارگو لایٹ کا کہنا ہے،’’ میں تسلیم کرتا ہوں کہ قرآن دنیا کی مذہبی کتابوں میں سب سے اہم مقام رکھتا ہے اگرچہ قرآن کو اس زمرے میں سب سے کم عمر کا کام سمجھا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگوں پر اس کا زبردست اثر پڑتا رہتا ہے۔ پہلی بار اس کتاب نے جزیرہ نما عرب میں صحرائی قبائل متضاد لوگوں سے بیروز کی ایک قوم پیدا کی اور اسکے نتیجہ میں اس نے عالم اسلام میں ایسی وسیع اور سیاسی اور مذہبی تنظیمیں تخلیق کیں جو کہ ایک عظیم قوت ہے، جس پر یورپ اور مغرب بھروسہ کر سکتے ہیں ۔‘‘
 )Quran and others , 13..watt, montgomery,
The influence of islam on medieval europe)
درج بالا تمام بیانات ،اظہار بیان اور فکری خیالات کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں پہلے نازل ہونے والی ایک کتاب یعنی قرآن کریم ان تمام صفات کا مجسمہ ہے جو ہر دور کے انسان اور انسانیت کو پیش آنے والے مختلف قسم کے مصایب و مشکلات کا واحد راہ حل ہے ۔ قرآن مجید ایک منجی کی حیثیت سے پوری دنیا کے لئے ایک آزمودہ اور کامل نسخہ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس نسخۂ نجات کے دامن کو مع منجی ناطق کے تھاما جائے تاکہ آیات الٰہی میں مضمر اسرار و رموز صحیح طرح کشف ہوں اور انسان حقیقی فلاح و بہبودی پانے میں کامیاب ہو۔