! فلسطین پر ظلم و بربریت اور اُمّت ِ مسلمہ فکر انگیز

ذکی نور عظیم ندوی
مسجد اقصی کی بے حرمتی، وہاںہونے والے ظلم و تشدد، فوجیوں کی زیادتیاں، معصوموںکاقتل عام،یک طرفہ اسرائیلی توسیعی منصوبے، ناجائز تعمیرات اور قبضہ کو مستقل شکل دینے کی مذموم حرکتیں، اقوام متحدہ، حقوق انسانی تنظیموں اور با اثر ممالک کی مجرمانہ بے غیرتی اور منافقانہ خاموشی، اسرائیل کی ظالمانہ و جارحانہ کاروائیوں میں ہوتا اضافہ، عام بستیوں پر بمباری اور دیگر تمام اسرائیلی جرائم کے پس منظر میں تمام ملکوں، تحریکوں یہاں تک کہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ ان شرارتوں سے مظلوم فلسطینیوں کو نجات دلانے کیلئے ہر سطح پر نہ صرف آواز بلند کریں بلکہ عملی طریقے بھی اختیار کئے جائیں اور ان کے سد باب کیلئے ممکن مؤثر اقدامات کئے جائیں۔
اگر ہمیں فلسطین میں شہیدوں کی لاشیں، زخمیوں کی سسکیاں، بلکتی ماؤں کی وآہیں، بہنوں کی درد بھری صدائیں، یتیموں اور بیواؤں کی چیخیں، مسجد اقصی اور فلسطین میں بہتی خون کی دھاریں، ہزاروں بے گھر وں کی تکلیفیں، معذوروں کی آرزوئیں اور امنگیں، مظلوموںکی دعائیں، نہتے مجاہدین کی محدود کوششیں، یہاں تک کہ حقوق انسانی کی پامالی کی داستانیں، صحافیوں اورمیڈیا کی دبائی گئی آوازیں، مٹائی گئی تصویریں اور تحریریں، اغوا کی وارداتیں اور معمولات زندگی ٹھپ ہوجانے کی حقیقتیں اب بھی بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں تو یہ ہمارے احساس و شعور، اُمیدوںاور توقعات ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر اجتماعی موت یا خودکشی کا اعلان ہوگا، جس کے بعد ہمیں کسی سے شکوہ کا کوئی حق نہیں۔
ایک بار پھرفلسطین پراسرائیل کی ظلم و زیادتی ، اندھادھند فائرنگ، بمباری اورقتل عام کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور حسب سابق ان واقعات پر چہار طرفہ شدید ردعمل ، ناقابلِ برداشت درد و کرب کے اظہار، بعض ملکوں کے تیز و تند بیانات آنے لگے ہیں، یقینا جلد ہی مختلف ملکوں پر مشتمل تنظیموں کی میٹنگیں اور اس میں شدید مذمتی قراردادیں بھی پاس کی جائیں گی، لیکن کیا اس سے اسرائیل کی وحشیانہ و جابرانہ کاروائیوں پر کوئی فرق پڑے گایا اس میں مزید شدت پیدا ہوگی اور فلسطینیوں کے درد و کرب اور پریشانیوں میں اضافہ کا سلسلہ درازہوتا چلاجائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے سنجیدہ حل اور فلسطینی بھائیوں کی پریشانیوں کے ازالہ کی حقیقی کوششوں کے بجائے ہمیشہ کی طرح صرف بیان بازی میں مقابلہ آرائی ہورہی ہے ا،س سے نہ فلسطین کا فائدہ نہ ان کی پریشانیوں میں کمی کی توقع، نہ مسجد اقصیٰ کے تقدس میں اضافہ اور نہ ہی اسرائیلی شرارتیں رکنے کا امکان۔
یاد رکھیں کہ اس وقت دنیادو راہے پر کھڑی ہے، روس اور چین امریکہ کو سخت چیلنج پیش کر رہے ہیں،عالمی سطح پر صورت حال تغیر پذیر ہے، ایک طرف روس یوکرین جنگ، دوسری طرف تائیوان میں چین امریکہ کشمکش،آذربائیجان و آرمینیا اختلافات اور یورپ میں غذائی قلت و اقتصادی کساد بازاری کسی بھی وقت یک قطبی دنیا کو تبدیل کرسکتی ہے،وفاداریاں بدل سکتی ہیں دوست دشمن اور دشمن دوست ہو سکتے ہیں،معمولی غلطی کا سنگین اور بڑا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت حال میںبہت سنجیدگی سے حالات کے جائزہ ، مناسب لائحہ عمل ، قوت فیصلہ اور اس کی تنفیذکی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں امت مسلمہ خاص طور پر قیادت کے دعویدار بڑے ملکوں کواپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
گزشتہ برسوں ترکی نے اپنے ملکی مفادکے لئے جو کچھ کیا ، روس،یوکرین، اقوام متحدہ اور کبھی کبھی امریکہ کے درمیان جس طرح ثالثی کا کردار ادا کیا،وہ مالی اعتبار سے مستحکم ، علاقہ کی اہم تجارتی اور بڑی مسلم عسکری طاقت بھی ہے۔ صدر اردغان کو اندرون ملک بھی کسی چیلنج اور دقت کا سامنا نہیں، مختلف موقعوںپر امریکہ اور روس جیسی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میںآنکھ ڈال کربات کرتے ہیں، بیرون ملک بھی اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ، مضبوط حکمت عملی، مستقل مزاجی اور پلاننگ کی لئے مشہور ہیں، ضرورت پڑنے پر عراق اور شام پر عسکری طریقے بھی استعمال کئے اور اپنے مفادات کوکبھی متأثر نہیں ہونے دیا۔اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین میں زبانی دلچسپی اور سخت بیانات کےبجائے عملی اقدامات کے ذریعے اسرائیل کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے، فلسطینیوں کو آزادی اور ان کا جائز حق دلانے اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔
ایران اپنے بیانات کے ذریعہ امریکہ جیسی سپر پاور طاقت کو چیلنج کرتا رہا ہے۔ اس نے علاقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں بھی کامیابی حاصل کی، شام و عراق کی حکومتیں ایرانی مفادات کی رعایت اور بھرپور تائیدکرتی ہیں، یمن کے حوثیوں اور حزب اللہ کے پیچھے بھی و ہی ہے، مضبوط مالی حیثیت کی حامل قطر اور ترکی سے بھی قربت ہے، وہ جوہری معاہدہ میں ملکی مفادات کے تحفظ کی بھر پور کوشش کر رہا ہے، اس نے فلسطین کے تعلق سے سخت بیانات جاری کئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ عملی طور پر بھی کوئی اقدام کرتا ہے جس سے واقعی حالات میں تبدیلی ہو اور ایران کی مسئلہ فلسطین میںسنجیدگی اس کی حقیقی طاقت اور ارادوں کا لوگوں کو احساس ہو سکے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ان دنوں اپنی کامیاب اقتصادی وسفارتی پالیسیوں، برادر ملک قطرسے تعلقات کی بحالی، ترکی صدرکی ریاض آمداورپھر ترکی میں ان کی ضیافت اورخاص طورپرامریکی صدر بائیڈن کی اپنے دیرینہ موقف میں تبدیلی کے بعدسعودی عرب کا سفر،ولی عہد سے برابری کی بنیاد پرگفتگو، روس یوکرین جنگ سے پیدا شدہ صورت حال میں ان سے تعاون کی خصوصی امیداور درخواست ، اس پر ولی عہدکا واضح موقف اور پھر بعض یوروپی ملکوں کے کامیاب سفر کے بعدوہ بین الاقوامی سطح پر اُبھر کرجس طرح سامنے آئے ۔ اسی طرح خلیجی ملکوںسے حسب سابق پر اعتماد دوستانہ تعلقات ،مصر کے ساتھ مل کرفلسطین کیلئے مختلف موقعوں پرکئے گئے اقدامات اوراس سلسلہ میںسعودی عرب کے سابقہ تاریخی کردار کے مدنظران سے صرف مالی، سفارتی، طبی ساز و سامان، اشیاء خورد و نوش یا دیگر اشیاء کی فراہمی ہی نہیں بلکہ کسی مؤثر اقدام کی توقع کرنا غلط نہیں ،وہ پاکستان جیسی تنہا مسلم ایٹمی طاقت ، معاشی طور پرمستحکم انڈونیشیا، ملیشیااور بہت سے دوسرے مسلم وغیر مسلم ملکوں سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔
یہ خبر کسی حد تک قابل اطمینان ضرورہے کہ معصوم بچوں سمیت تقریبا 50 لوگوں کی شہاد ت ، 3 سو سے زائد زخمیوں اور ہزاروں گھروں کی تباہی اور دیگر ناقابل بیان نقصانات کے بعد بعض ملکوں اور حکمرانوں کی کسی قدر سنجیدہ اور خاموش کوششوں اور مصر کی عملی پہل اورثالثی سے و قتی جنگ بندی ہوگئی ، لیکن کیا یہ مستقل حل ہے اوراس سے آئندہ اسرائیلی جارحیت و بربریت اور حقوق انسانی کی پامالی نہ کئے جانے کی ضمانت دی جاسکتی ہے؟
موجودہ صورتحال میں فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں خاص طور پر حماس، جہاد اسلامی ،الفتح اور دوسری مؤثر طاقتوںکو آپسی اختلافات اورذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر باہمی افہام و تفہیم کے ذریعہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ انفرادی طور پر کوئی ایسا فیصلہ نہ لیں جو تمام فلسطینیوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ یا مسجد اقصی کے تقدس کی بحالی میں مزید دشواری پیدا کرے۔ موجودہ پس منظر میں یہ بڑا مثبت، مؤثر، مفید اور کامیاب تعاون ہوگا۔ گویا اس مسئلہ میں اجتماعی و انفرادی، حکومتی و شخصی ہر سطح پر ذمہ داری ادا کرنے ،ممکنہ وسائل کا جائزہ لیکر کوئی متعین طریقہ نہیںبلکہ الگ الگ طریقے اختیار کرنے اور اسرائیل پر چو طرفہ مؤثر دباؤ کی سخت ضرورت ہے۔
جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے یہ چیز مفید ثابت ہوسکتی ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودیوں نے جس طرح سے فتنہ و فساد، اپنے محسنوں کے ساتھ زیادتیاں اور پیٹھ پیچھے چھُرا گھونپنے کی حرکتیں کیں ،وہ اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے لائیںاور وطن عزیز اور اس کے تمام باشندوں کو ان کے جال میں پھنسنے، دھوکہ کھانے اور مستقبل قریب یا بعید میں ان کی متوقع فتنہ انگیزیوں اور شرارتوں سے انھیں بچانے کی سنجیدہ موثر اور منصوبہ بند کوشش کریں۔
[email protected]