فرصت ِ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آغاز سے انجام تک غوروفکر کی ضرورت

عذرا زمرود۔ کولگام

کیا انسان افضل تخلیق نہیں ؟ کیا ہم نکلتے اور ڈوبتے سورج کے مناظر نہیں دیکھ سکیں گے؟ کیا ہم تاریک مصروفیت اماوس کی رات میں بھٹکتے رہیں گے ؟ کیا زندگی کے نصیب میں فرصیت نہیں ؟ کیا ہم کبھی آزاد نہیں ہو سکتے ؟ اتنا تو معلوم ہے ہم جلدی میں ہیں ۔۔۔ہمیں کس بات کی جلدی ہے۔۔۔ یہ معلوم نہیں !
قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔اِ ن الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔’’ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ ‘‘
گویا اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کا سامان مہیا کردیا جائے۔ پھر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت وحیات کا سلسلہ قائم کیا، اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل وتمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اگر سرتسلیم خم کرلے تو یہی اس کے لیے بہتر روش ہے اور اس کے اعمال اچھے ہوں گے، اور انکار کی صورت میں اس کے اعمال بھی بُرے اور بدلہ بھی بُرا ملے گا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دارالامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ موت سے لے کر بعث بعدالموت تک کا عرصہ امتحان کے نتائج کے انتظار کا عرصہ ہے۔ تاہم ہر ایک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امتحان میں فیل ہونے والا ہے یا پاس اور اسی کے مطابق اسے اس عرصہ میں کوفت یا راحت بھی پہنچتی رہتی ہے اور قیامت کو اس امتحان کے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگا۔ نمبر نہایت انصاف کے ساتھ دیئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی ملے گی۔
یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ اول یہ کہ موت اور حیات اسی کی طرف سے ہے، کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے، اس کی نہ زندگی بےمقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا اظہار کرسکے اور عملاً یہ دکھا دے کہ وہ کیسا انسان ہے۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا بُرا۔ لہٰذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہوگا ،اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی۔ کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔اور ہم وقت کی قدر بھی نہ کرتے اس لیے وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے۔ وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہےاور سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی، وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی۔ لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھیں تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’ افحسبتم انما خلقنکم عبثاو انکم الینا لا ترجعون‘‘۔(سورہ المومنوں :۱۱۵)
کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بطور تفریح بنا دیا ہے، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئ ہے۔
کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لا حاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کئے گئے ہو، جن کا بھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔
ایے لوگوں ! کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے اور تمہیں ہمارے پاس واپس آ کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب نہیں دینا ہے؟ عقلی اور منطقی طور پر یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانی تخلیق کا مقصد سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اگر انسان عام حیوانات جیسا حیوان ہوتا تو پھر واقعی حیات بعد الممات اور آخرت کی کوئی ضرورت نہیں بھی مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ حیوانات کے برعکس انسان کے اندر کی تمیز Moral Valuesوجود میں آئی ہیں وہ کسی قوم کسی علاقے یا زمانے تک محدود نہیں ۔ چنانچہ ’’گندم سے گندم اگتی ہے اور جو سے جو‘‘ اصول کے مطابق اچھائی کا نتیجہ اچھا نکلتا چاہے اور برائی کا بُرا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ لازمی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ صورت حال منطقی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا بھی وجود میں آ ئے ، جہاں ہر انسان کی موجودہ زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل کا احتساب کر کے مصدقہ آ فاقی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہو ۔ یعنی تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش و آ رام کرنے اور مزے لوٹنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں ۔ اسی دنیا میں نہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے نہ اپنے خیال کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی انسان دوبارہ زندہ ہوکر واپس آیا ہے ۔ جو یہ خبر دے کہ ظالموں کو اس کے ظلم کی سزا ملی ہے ۔ لہٰذا تم نے یقین کر لیا کہ یہی دنیا ہے جیسے ہی بن پڑے یہاں عش وعشرت کا سامان اکٹھا کر لو،حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ کائنات اور اس انسان کو محض ایک کھیل تماشہ کے طورپر نہیں بنایا گیا۔ لیکن ہر سبب ایک نتیجہ پیدا کر رہا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے اچھے اور بُرے اعمال کا کوئی نتیجہ مرتب نہ ہو ۔ اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کے نتیجہ بھگتنے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے ۔ لہٰذا مرنے کے بعد اب طویل زندگی کا قیام ضروری ہوا ، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیا جا سکیں۔
ہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : (نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ) الواقعۃ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے ۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا ( الحج( کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔
آخر میں فرمایا کہ وہ عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سزا کے مستحق ہوں گے، ان کو اس کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔اور وہ غفور بھی ہے یعنی وہ ظالم اور سخت گیر نہیں بلکہ جو مغفرت کے مستحق ہوں گے ،ان کو وہ اس سے محروم نہیں فرمائے گا۔ جو اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر معافی مانگ لیں گے ،ان سے وہ درگزر فرمائے گا۔ اور ہر حقدار کو سعی و سفارش کے بغیر ان کا حق عطا فرمائے گا۔
[email protected]>