غریبوں کے چولہے ٹھنڈے نہ پڑنے دیں

گوکہ کورونا وائرس کی عالمی وباء تو کم وبیش تھم چکی ہے تاہم اس وباء کے نتیجہ میںعالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔اس وبائی مرض نے دنیا کا معاشی نظام تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے اور یقینی طور پر عام آدمی کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہوگئی ہے ۔اس طبی بحران کے نتیجہ میں اس وقت انسانی آبادی کوجو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے ،وہ مہنگائی کا ہے اور روز مرہ زندگی کی بیشتر چیزیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہونے لگی ہیں۔ہمارے ملک بھارت میںمہنگائی کا جن بوتل سے کچھ اس طرح باہر آیا ہے کہ اب مہنگائی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہے اور اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑنا شروع ہوچکے ہیں۔ضروری اشیاء ، جن کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا، اب وبائی مرض سے پہلے کی نسبت کئی گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کا رجحان کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اضافے کا رجحان جاری ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔مہنگائی کی مار جھیل رہے ہمارے معاشرے کے غریب طبقے کی پریشانیوں سے کوئی غافل نہیں ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ غریب کے لئے دو وقت کی روٹی جٹا پانا بھی مشکل ہوچکا ہے تاہم اب حالات یہاںتک پہنچ چکے ہیں کہ ہمارا متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقہ بھی یکساں پریشاں ہے کیونکہ اب اخراجات ان کے بجٹ سے باہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔صورتحال اُس وقت تشویشناک بن جاتی ہے جبکہ آمدن کے ذرائع محدود ہوں۔ان تین برسوں میں ہم نے بچشم خود مشاہدہ کیا کہ بیشتر لوگوںکی آمدن میں اضافہ کی بجائے خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور دوسری جانب جب چیزوں کے دام بڑھ جائیں تو یہ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے جو بیک وقت دو ضربیں دے رہی ہے ۔ایک آمدن کم اوردوسرا اخراجات زیادہ ۔ایک ایسے خاندان کی حالت زار کا تصور کریں جو اپنی روزی روٹی کھو چکا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اس کی بچت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ یہ ایک بہت خطرناک منظر ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ تنگدستی اور اس کے نتیجے میں ڈپریشن کے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔گویا وبائی بیماری ہماری معیشت کی کمر توڑنے کے لیے کافی نہیں تھی، یوکرین میں جنگ چھڑ گئی۔ اس نے مہنگائی کو مزید تقویت دی اور چونکہ جنگ جاری ہی ہے تو مہنگائی ہی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔مانا کہ سرکار نے مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں کیں اور مسلسل کررہی ہے تاہم بادی النظر میں حکومتی اقدامات کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مہنگائی بتدریج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور عام آدمی کو راحت ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔اس صورتحال میں حکومت کیلئے صورتحال کا جائزہ لینا اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مارکیٹ میں اختراعی مداخلت کرنا انتہائی ضروری بن گیاہے۔حکومت اس سنگین مسئلہ پر اُن ماہرین کے بحث و تمحیص کیلئے نہیں چھوڑسکتی ہے جن کا ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات و سوشل میڈیا مباحثوں میں بحث کرنا مشغلہ بن چکا ہے ۔ ان نام نہاد ماہرین کی ایسی بحثیں اُس وقت تک ایک عام آدمی کیلئے کوئی مطلب نہیں رکھتی ہیںجب تک کہ قیمتوں کو واقعی قابو میں نہ کیاجائے۔حکومت کا کام صرف اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا نہیں ہے بلکہ طویل مدتی منصوبہ میں قیمتوں کو نیچے لانا ہے۔ان لوگوں کیلئے جن کی کمائی کم ہے اور ہماری آبادی کا سب سے بڑا حصہ اس زمرے میں پڑتا ہے ،ان کیلئے دو وقت کی روٹی جٹاپانا مشکل ہوچکا ہے ۔ ایسے لوگوں کو حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے اور ان کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس رجحان کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کی جائے۔حکومت چاہے تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ہم ایک فلاحی ریاست کے باشندے ہیں جہاں حکومت عوام کو راحت پہنچانے کی مکلف ہے اور حکومت کے پاس یقینی طور پر ایسا انتظام ہمہ وقت موجود رہتا ہے جس کو بروئے کار عوام کی راحت رسانی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور شاید ہی آج سے زیادہ عوام کو مہنگائی کی مار سے راحت پہنچانے کی ضرورت ہوگی ۔ارباب بست و کشاد کو چاہئے کہ وہ غریب عوام کی راحت رسانی یقینی بنانے کیلئے مہنگائی پر قابو پانے کے مزید اور ٹھوس اقدامات کرں۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ارباب اقتدار عام عوام کی مشکلات سے لاتعلق اور بے نیاز ہیں۔