غریبوں کو بھول نہ جائیں حق ادائیگی

رئیس احمد

ماہ رمضان المبارک میں جہاں بہت سی سعادتوں کا نزول ہوتا ہے ،وہیں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و محبت کا جذبہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔رمضان ہمدردی کا مہینہ ہے، ہمدردی کا مطلب اپنے نفس کو مارنا اور غرباء ، فقراء اور نادار لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ اس ماہ مقدس کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے غریب اور سفید پوش طبقات کی جانب توجہ دی جائے،کھانے سے محروم فاقہ زدہ خاندانوں کی مدد کی جائے تاکہ ان کی سحری و افطاری بھی ہو سکے اور وہ نعمتیں جو مال دار طبقہ کو قدرت نے نصیب فرمائیں ،اُن سے غرباء کا دسترخوان بھی سج سکیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے ، ننگے کو کپڑا پہنائے، مسافر کو پناہ دے، تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی سختیوں سے محفوظ فرما ئیں گے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا ، اے آدم کیاولاد ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے نہیں کھلایا تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں تجھے کیوں کر کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرتا ہے؟ اللہ کہے گا کہ تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اُسے نہیں کھلایا؟ کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تو اُس کو کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے یہاں پاتا؟ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے نہیں پلایا ،تو وہ کہے گا اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو خود ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے پیاسا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا، اگر تو اس کو پانی پلادیتا تو وہ پانی میرے یہاں پاتا۔ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی غریب کو کھانا کھلانا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے ۔ صحابہ کرام ؓ میں ایثا و ہمدردی کا جذبہ اِس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو جہمؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں، میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا،جو لڑائی میں شریک تھاکہ اُس کی حالت دیکھوں اور ایک مشیزہ پانی میں نے اپنے ساتھ لے لیا تھا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسا ہو۔ اتفاق سے وہ مجھے ایک جگہ اس حال میں ملا کہ اُس کا جسم زخموں سے چور تھا اور آخری سانسیں لے رہا تھا۔ چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ پانی پیش کروں تو انہوں نے کہا کہ پلاؤ۔ انہوں نے پیالہ میں ہونٹوں کے قریب ہی کیا کہ اتنے میں قریب پڑے دوسرے زخمی مجاہد نے کہا کہ پانی ،تو میرے چچازاد بھائی نے اشارہ سے کہا کہ مجھے چھوڑو، میرے پاس پڑے مجاہد صحابی کو پانی دو۔ حضرت ابو جہم فرماتے ہیں، میں اس صحابی کے پاس پہنچا تو ان کے پاس پڑے ایک اور مجاہد صحابی نے کہا کہ پانی۔اُس دوسرے صحابی نے مجھے اشارہ کیا مجھے چھوڑو، میرے پاس پڑے اِس مجاہد صحابی کو پانی پلاؤ۔ چنانچہ جب اُ س صحابی کے پاس پہنچا تو اُن کی روح پرواز کرچکی تھی۔ واپس پلٹا تو دوسرے دونوں اصحاب بھی آخری وقت میں ایثار کرتے ہوئے حوض کوثر پر پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک واقعہ ہے لیکن اگر اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جائے تو جہاں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و صحبت کا اثرواضح نظر آتا ہے، وہیں پر صحابہ کرامؓ آخری وقت میں بھی ایثا و ہمدردی کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رمضان ہمدردی اور ایثار کا مہینہ ہے ۔اس لئے جہاں ایک مسلمان اپنے اہل وعیال کوکے اچھے نعمتوں سے افطار کرائیں، وہیں اُس پر یہ حق بھی ہے کہ اپنے اِردگرد نظر دوڑائیں کہ کہیں کوئی بھوکا پیاسا تو نہیں ہے ۔ ہمیں ان غریب بچوں کا خیال رکھنا ہے، جن کو زیب تن کے لئے کپڑے نہیں ہوتے۔ مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میں جس حال میں بھی ہوں،منشائے اللہ سے ہی ہوں۔ اگر میرے ربّ نے مجھے دولت سے نوازا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہےکہ کیا میرا یہ بندہ اس دولت میںسے غریبوں کا حق ادا کرتا ہے؟ ۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا تاآنکہ پانچ سوالوں کا جواب دے : عمر کہا ںگزاری ، جوانی کس کام میں کھپائی ، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ، اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ تو مسلمان کو چاہیے کہ حلال ذرایع سے مال حاصل کریں۔ پھر اس مال کا مخصوص حصہ غریبوں اور محتاجوں پر بھی خرچ کرے ۔اگر زکوٰۃ ادا کی اور نہ صدقہ و خیرات کیا تو قیامت کے دن یہ دولت اس کے لئے ناکامی کا سبب بنے گی۔ رمضان المبارک میں تو ایک نیکی کا اجر ستر گنا تک ہوتاہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات رحمت و کرم سے کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہ ادا پسند آئے کہ افطار و سحر کے وقت غریب کے منہ میں لقمہ جائے یا شربت کا گھونٹ اُترے، تو اللہ تعالیٰ مغفرت کے فیصلے فرمادے۔ نقدی کی صورت میں بھی یہ مدد کی جاسکتی ہے، ورنہ بہترین صورت ہے کہ حسب توفیق راشن دے دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ غرباء اور فقراء محتاجوں کا خیال رکھا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ جہاں آخرت میں اجرو ثواب نصیب فرمائے، وہیں دنیا میںبھی رزق میں وسعت عطا فرمائے۔ پھر یہ اجر و ثواب الگ ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص روزے دار کو افطار کرائے خواہ کھجور یا دودھ میں پانی ملا کر لسی سے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو روزے دار کے برابر اجر نصیب فرماتے ہیں اور روزے دار کو اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔