عورت پر ظلم وستم میں مردوزَن کا ہاتھ معاشرہ

اشفاق پرواز ۔ ٹنگمرگ

جب خالق کائنات نے حضرت آدم کو جنت ارضی پر اپنا نائب بنا کر بھیجا تو دنیا کی رونق میں کچھ کمی سی تھی۔ ہر منظر کچھ پھیکا پھیکا سا تھا ، سنسان جزیروں اور ویران جنگلوں میں بہار پیدا کرنے کے لیے وجود زن کی اشد ضرورت محسوس کی گئ اور پھر وجود زن کو کائنات کا حسن بنا کر اس کے زرے زرے کو رشک فردوس بنا دیا۔عورت اپنے ہر روپ میں کائنات کا حسن ہے ۔ ایک پیکر وفا اور کائنات کی لطیف ترین ہستی ہے ۔ حجاب آلود تبسم ، پر خلوص، ہمدرداور غمگسار ساتھی ہے۔
عورت ہی وہ گل ہے ،جس سے زندگی صد رشک گلستان ہے۔وہ پاکیزہ ہستی ہے ، جو اپنی ذات، اپنی بے لوث حقیقی لگن اور سچی محبت سے گھر کو بہشت بنا تی ہے ۔ عورت گل بداماں ہے بشرطیکہ صابر اور با اخلاق ہو۔ عورت کی تعریف صرف انہی الفاظ تک محدود نہیں بلکہ عورت تو وہ پاکیزہ ہستی ہے جو ہر رشتے کو مکمل اور خوبصورت بنا دیتی ہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت جیسی معتبر ذات ہمارے معاشرے کے لیے معمہ بن گئ ہے۔کہیں یہ عورت مظلومیت کی تصویر بنی ہوئی ہے تو کہیں ستم و زیادتی میں ظالم کا کردار نبھاتی ہے ۔ کہیں یہ عورت سلیقہ شعار اور وفا کا پیکر ہے تو کہیں یہ بے وفائی کی مثال بنی ہوئی ہے۔کہیں یہ عورت محبت اور ہمدردی کے جذبات کا مجسمہ بنی ہے تو کہیں حسد ، نفرت و غصے کی آگ میں جھلس رہی ہے۔کہیں یہ عورت رشتوں کی پاسداری اور نباہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی تو کہیں پہ یہی عورت بسے بسائے گھروں اور رشتوں میں دراڑ ڈالتی ہے ۔ کہیں پہ عورت کا سراپا نزول رحمت کا موجب ہے تو کہیں پہ یہی وجود زن زحمت ہے۔عورت کی ذات کے یہی دو مختلف پہلو نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔
اگر عورت کی تصویر میں مظلومیت کا رخ دیکھا جائے تو خواتین کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک میں مرد و عورت دونوں کا ہاتھ ہے۔اگر عورت ایک ماں ہے تو اسکی کمزوری (اولاد) کا ناجائز فائدہ اٹھا کر معاشرہ اس کے ساتھ ایسا جاہلانہ رویہ اپنا تا ہے جیسے عرب میں ظہور اسلام سے پہلے عورتوں کے ساتھ برتاو کیا جاتا تھا ۔ اگر عورت بیوی ہے تو شوہر اس پر دھونس جما کر ہر جائز و ناجائز مطالبہ منواتا ہے ۔اگر بیٹی ہے تو جائیداد وبرادری کے مسائل اور انا کی خاطر بیٹیوں کی قربانی کا رواج قائم ہو چکا ہے۔ اگر عورت بہن ہے تو تو بھائی کی غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔ الغرض ہر حال میں عورت کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔
اگر معاشرے میں عورت کے ساتھ روا رکھے گیے سلوک کو دیکھیں گے تو دل خون کے آنسوروتا ہے ۔اگر مرد عورت پر اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتا ہے تو دوسری جانب عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ہمارے یہاں ریاست جموں کشمیر میں جب نکاح کا رشتہ طے کرنا ہوتا ہے تو عمومی طور لڑکی کو دیکھنے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے گھر کی عورتیں ہی پیش پیش رہتی ہیںاور اس کی عام مثالیں ہمارے معاشرے میں ملتی ہیں۔کسی لڑکی کا رشتہ دیکھنے کی بات ہو تو لڑکی کے نین نقش ، شکل و صورت ،قد و جسامت، حسن و آرائش ، لباس اور بول چال سے لیکر اسکی تعلیم و تربیت کا بغور جائزہ عورت ہی لیتی ہے۔اور ان ہی چند لمحات میں لڑکی کے کردار اور اس کے پورے خاندان کے بارے میں بغیر کچھ جانے مستقل رائے قائم کر لی جاتی ہے ۔گویا رشتہ نہیں فرشتہ دیکھنے آئے ہوں ۔لڑکی میں تمام تر خوبیاں ہونے کے باوجود اس میں عیب نکالنا اور بار بار ماڈل کے طور پر پیش کرنا ایسی روایت بن چکا ہے کہ جیسے اس لڑکی کے سینے میں دل نام کی کوئی شے ہی نہ ہو۔
لڑکی کا رشتہ ابھی تک کیوں نہیں ہوا ؟ اتنی عمر ہو گئ ہے ۔ داماد کی آمدن بہت کم ہے ۔ دلہن کی عمر دولہے سے زیادہ لگتی ہے ، بیوی تو اسکے آگے اماں لگتی ہے۔ جہیز میں کیا لائ ہے؟کچھ خاص شکل و صورت نہیں ہے۔شادی میں کھانا عمدہ نہیں تھا۔لڑکی والوں نے تو لڑکی کے سسرال کا بھی لحاظ نہیں کیا ۔ دلہن کی بہنوں کے چال و چلن ٹھیک معلوم نہیں ہوتے یعنی اچھے کردار کی نہیں لگتی ہیں۔بہنیں ایسی ہیں تو دلہن کیسی ہوگی۔یہاں شادی کو ایک سال مکمل ہوتا ہے کہ بہو کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔کہیں بانجھ تو نہیں۔ اتنا عرصہ ہوگیا شادی کو ابھی تک اولاد کی خوشخبری نہیں ملی ۔ بیٹی پیدا ہوجائے تو بہو سے ناراضگی اور سخت رویہ اپنا یا جاتا ہے ۔ اور اگر بیٹیاں ہی ہوں تو ماں کو ہی منحوس قرار دیا جاتا ہے۔گویا بیٹیاں رحمت نہیں زحمت ہیں اور بیچاری لڑکی ساری زندگی سسرال، شوہر اور دنیا والوں سے بیٹیاں جننے کے طعنے سنتی ہے۔اس قسم کے جملے اور چبھتے الفاظ ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں ۔ ہر فرد کی زبان سے یہ کلمات ایسے نکلتے ہیں جیسے یہ کوئی مذہبی فریضہ ہو اور اس میں ثواب کمانے میں سب پیش پیش رہتے ہیں ۔ عورت کا زرا کا بناو سنگھار اور خود مختار ہونا فوراً اسے معاشرے کی نظر میں مشکوک کردار ثابت کر دیتا ہے۔
عورت کا ذات کا دوسرا پہلو اس کے بالکل برعکس ہے ۔ جسمیں عورت بچپن سے لیکر جوانی تک شرم و حیا کا پیکر بنی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لیے جیتی ہے ۔ گھر کی زینت اور رونق کا سروسامان اسی کے دم سے ہوتا ہے لیکن اپنے والدین ہی کی خاطر اپنے پیارے بچپن کے ساتھی ، گھر، اپنے بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی محبت سے دور اپنا ایک الگ گھر بسا لیتی ہے۔ جہاں اسے ساری زندگی بسر کرنا ہوتی ہے ۔ وہ اپنے شوہر سے آخری سانس تک محبت اور وفا نبھاتی ہے۔سسرال کی خدمت کرتی ہے ۔رشتوں کی بقا کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی ہے ۔ اولاد کے سکھ کے لیے ہر طرح کی تکلیف سہتی ہے ۔جوانی سے بڑھاپے تک اپنے شوہر اور اولاد کے لیے جینے والی اگر یہ عورت اپنے آپ پر ایک نظر دوڑائے تو اسے معلوم ہو کہ اسکا وجود اس کائنات کے لیے کس قدر اہم اور ضروری ہے ۔ اس کے بغیر ہر رشتہ ادھورا اور بے معنی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی آج کی عورت کو وہ باعزت مقام حاصل ہے جو ظہور اسلام کے وقت خدائےتعالیٰ نے اپنے احکامات و آیات میں مقرر کیا تھا ؟ کیا آج کی عورت کو وہ تمام حقوق باآسانی حاصل ہیں جو ہمارے دین اسلام میں ایک ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کو حاصل ہیں ۔ افسوس آج کی عورت کا مقام ، عزت اور حقوق کہیں مٹی میں دفن ہوگیے ہیں۔ کیونکہ اس نے نہ صرف اپنی شناخت اور حقیقی پہچان کھوئی ہے بلکہ ان تمام تعلیمات سے بھی دوری اختیار کر لی ہے جس کا حکم میرے اللہ اور نبی ﷺ نے دیا ہے۔ جس میں ہر عورت کے لیے تحفظ اور عزت کا مقام ہے۔ لیکن آج کی عورت نے اپنی زندگی کے کٹھن سفر کو مزید تکلیف د ہ بنا لیا ہے جوکہ پہلے سے ہی رشتوں کی وفا میں جکڑی ، قربانیوں ، محبتوں اور سمجھوتوں سے لبریز ہے ۔ لیکن اسے مزید تکلیف دہ بنانے میں بھی عورت کا ہی ہاتھ ہے ۔ کسی عورت پر مرد کا بہتان لگانا، اسکی حق تلفی کرنااور پھر دوسری تیسری شادی رچا لینا ، اس میں بھی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے جو اسے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر پہلی بیوی کا بسا بسایا گھر اجاڑ دیتی ہے۔بیٹے کا ماں کو اپنی بیوی کی وجہ سے دھتکار نا اور اسے گھر سے نکالنے میں بھی اس کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے۔بیٹی کو اس کے حق سے محروم رکھنا اور اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے میں بھی مائووں کا بنیادی کردار ہوتا ہے جو اپنے بیٹوں کو تو سولی چڑھتا دیکھ نہیں سکتیں لیکن بیٹیوں کو ہمہ وقت ایسی قربانیوں کے لیے تیار رکھا جاتا ہے۔عورت کا عورت پر یہ ظلم ناقابل یقین ہے۔یہ تو عورت کے عورت پہ ستم اور ناانصافیاں ہیں لیکن مرد کی عورت کے ساتھ ہر طرح کی جسمانی ، ذہنی اور جذباتی زیادتی نہ صرف معاشرے میں بڑھتی جارہی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی آدھی نسل کو ایسا ذہنی مفلوج کردیا ہے جس کے اثرات شائد نسلوں تک ختم نہ ہوں گے۔جو نہ صرف آنے والی نسل کے لیے تباہی کا سامان ہے بلکہ ہمارے مذہبی ،اخلاقی ، معاشرتی اور معاشی زوال کا بھی موجب ہے۔
[email protected]