کابل // افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کے بعد پورے ملک پر طالبان کا مکمل طور پر قبضہ ہوگیا ہے۔اس دوران شمالی افغانستان کے 10لیڈر اہم گفت و شنید کیلئے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔طالبان نے قریب20سال بعد دوبارہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔انہوں نے 1996سے لیکر 2001تک افغانستان پر حکومت کی۔ ستمبر میں 9/11واقعہ کے بعد امریکی و نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو دنیا کی سپر پاور نے جدید ترین اسلحہ کا استعمال کر کے شکست دی۔ طالبان کی حکومت 17دسمبر 2001کو ختم کی گئی۔اسکے بعد طالبان 20سال تک مسلح جدو جہد کرتے رہے ہیں۔اتوار کی صبح انکے نائب عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے طالبان کے نمائندوں کیساتھ صدارتی محل میں مشاورت شروع کی تاکہ کسی خون خرابے کے بغیر اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جاسکے۔طالبان نے پہلے ہی کابل کا محاصرہ کیا ہوا تھا لیکن اپنے جنگجوئوں کو دارالحکومت میں داخل ہونے سے منع کیا تھا۔شام دیر گئے تک مذاکرات جاری رہے جس کے دوران یہ خبر دی گئی کہ صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے ہیں، جہاں پہلے ہی انکے نائب امر اللہ صالح اور قومی سلامتی مشیر حمد اللہ محب فرار ہوئے تھے۔رشید دوستم بھی ہرات کے پولیس سربراہ کیساتھ سنیچر کی صبح تاجکستان فرار ہوا تھا۔طالبان جنگجوئوں کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی جبکہ افغان اور غیر ملکی شہری انخلا میں مصروف تھے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں جنگجوئوں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کے احکامات جاری کردیئے۔افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ آن لائن ویڈیو بیان میں اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی تصدیق کردی۔انہوں نے کہا کہ ‘وہ مشکل وقت میں افغانستان چھوڑ گئے ہیں، اللہ ان سے پوچھے گا’۔افغان صدر کے دفتر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ‘سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اشرف غنی کی نقل و حرکت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا’۔اشرف غنی، ان کے قریبی ساتھی اور غیرملکیوں نے افغانستان کو تبدیل کرنے کے مغرب کے 20 سالہ تجربے کی ناکامی کے اشاروں کے ساتھ ہی ملک سے چلے جانے کے لیے دوڑ لگا دی ہے۔قبل ازیں طالبان جنگجو کابل کے اطراف میں پہنچ گئے تھے اور پریشان افغان حکومت ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوشش کرنے لگی۔دوسری جانب طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے منتظر ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دارالحکومت کابل پر بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے۔ایک آن لائن بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔جب اشرف غنی حکومت کیساتھ بات چیت ہورہی تھی تو طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا کہ کسی بھی شخص کو اس بات پر سزا نہیں دی جائیگی کہ اسکے سیاسی نظریات مختلف تھے۔طالبان نے کہا کہ کسی کو بھی کابل چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کسی کیخلاف بھی کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائیگی۔تاہم انہوں نے کہا کہ جو بھی غیر ملکی کابل چھوڑ نا چاہتا ہے وہ اپنی مرضی سے ایسا کرسکتا ہے۔طالبان نے مزید اعلان کیا کہ افغان فوج کی جانب سے خالی مورچوں کو طالبان کے رضاکار اپنے قبضے میں لے رہے ہیں تاکہ لوٹ مار کو روکا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ افغان فوجیوں کو اپنی مرضی کے مطابق گھر جانے کی اجازت ہے۔طالبان نے مزید کہا کہ بگرام میں ملک کے سب سے بڑے جیل میں بند قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا۔