شاعری کا عالمی دن !! معلومات

عاقب شاہین ۔راجپورہ

شاعری کی جامع تعریف چند لفظوں میں پیش کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ شاعری کا تعلق وجدان اور ذوق سے ہے اور اس کی مختلف وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔بنیادی طور پر شاعری کلام موزوں کا نام ہے خیالات و جذبات، حالات و واقعات ،احساسات وجذبات، مدح و ذم وغیرہ ۔ علامہ شبلی اسی تخیل کو (power of imagination) اختراعی صلاحیتیں پکارتے ہیں ۔علامہ شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنون لطیفہ میں بلند مقام رکھتی ہے۔
شاعری کی تعریف ہر قوم میں اس کی خصوصیات کے لحاظ سے ایک قوم سے دوسری قوم میں مختلف ہوتی ہے۔مختلف صدیوں سے اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ ہو سکتی ہے جس میں ذائقہ، ماحول اور اختلاط شامل ہے۔ دوسرا ادب اپنے آغاز سے اس دور تک بدل گیا ہے ۔اخلاقی نکتہ نظر سے، شاعری کی اصطلاح میں یہ شاعر کے جذبات و احساسات ہی ہوتے ہیں ،جن سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔شاعر نے تو اسی روز جنم لے لیا جب انسان نے جنم لیا۔ شاعری اظہار کی ایک ایسی شکل ہے جسے انسانیت قدیم زمانے سے جانتی ہے ۔ تمام زبانیں اپنی مختلف ثقافتوں کے ساتھ اس قسم کے ادب کو جانتے ہیں اور یہ تمام زمانوں میں انسانیت کی سب سے اہم ملکیت ہے۔
شاعری سے انسانیت کا احساس جگانے میں بہت اہم کردار ہے،دنیا بھر کے لوگ ایک جیسے سوالات اور احساسات کا اشتراک کرتے ہیں۔
شاعری، زبان، ثقافت، شناخت اور روایات کے تحفظ کا سنگ بنیاد ہے۔یہ دل سے اٹھنے والا وہ گیت ہے جو دلوں تک کا سفر کرتا ہے اور پھر انہیں اپنے سحر میں جکڑ کر کبھی ان کے لہو کو گرماتا ہے تو کبھی اپنی پہچان کروانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اس لئے 21 مارچ 1999 کو یونیسکو کے اجلاس میں اس دن کو منانے کا اعلان کیا گیا، کہا گیا کہ اس کا مقصد ’’تسلیم کی تجدید اور قومی، علاقائی اور بین الاقوامی شاعری کو تحریک دینا ہے۔اس دن کا مقصد پوری دنیا میں پڑھنے، لکھنے اور شاعری کی اشاعت اور تدریس کو فروغ دینا ہے۔‘‘
بین الاقوامی شاعری کا دن ہمیں تحریری لفظ کی طاقت اور اس خوشی کی یاد دلانے کے لیے آتا ہے، جو ان خطوط کو ساتھ لاتا ہے جو ان کی چمک کو مدھم نہیں کرتے اور ان کے اثر کو ختم نہیں کرتے، چاہے دہائیاں گزر جائیں۔ہر دور ہی شاعری کا دور رہا ہے، اسے کسی بھی دور میں زوال نہیں آیا۔اگر شاعری کی ابتدا کی بات کریں تو مورخین لکھتے ہیں کہ شاعری کا آغاز آدم علیہ السلام سے ہوئی ہابیل کے قتل ہونے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو بے حد رنج تھا اور سو برس تک ان کے چہرے پہ کبھی خوشی ظاہر نہیں ہوئی ۔آپ نے سریانی زبان میں ہابیل کا مرثیہ کہا جس کا عربی ترجمہ یوں ہے ۔
َ زمانہ جاہلیت میں شاعری کو بہت اہمیت حاصل تھی اور مکہ مکرّمہ میں کعبتہ اللہ کے دروازے پر عرب کے مشہور شاعروں کا کلام لٹکایا جاتا تھا۔زمانہ جاہلیت میں دس شہرت یافتہ شاعروں کا نام عرب شاعری میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ جن میں عمرو القیس، ترفہ بن العبد، زہیر بن ابی سلمہ، لبید بن ربیع۔ عمرو بن کلثوم، عنطرہ بن شداد، الحارث بن حلزہ، العاشاء، النبیضہ الذھبیانی اور عبید بن کوڑھی شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو شاعری بھی جاہلیت کے دوسرے کارناموں کی طرح ہے جو اسلام میں داخل ہوئے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رد یا منع نہیں کیا، بلکہ اس کی اصلاح کی اور نیکی، ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اس کو دعوت کے حق میں استعمال کیا۔
تاریخ ادب عربی میں لکھا گیا ہے کہ حسان بن ثابتؓ زمانہ جاہلیت میں پرورش پا کر بڑے ہوئے شاعری کو پیشہ بنایا اور اسی کے سہارے زندگی بسر کی ۔وہ شاہان مناظرہ و غسانہ اور آل جفنہ کی مدح کرکے ان کے انعامات سے اپنا گزارا کرتے تھے ۔ آنحضرتؐ ہجرت کرکے مدینے پہنچے تو انصار کے ساتھ حسان بن ثابت بھی مسلمان ہوگئے اور اپنی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و حمایت میں وقف کر دی ۔ پھر جب قریشیوں کی ہجو گراں گزرنے لگی تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا ،’’جن لوگوں نے اللہ اور رسولؐ کی مدد اپنے ہتھیاروں سے کی، انھیں کیا چیز روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے ان کی مدد نہ کریں‘‘ اس پہ حسان بن ثابت ؓ نے کہا کہ میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں اور آنحضرت ؐ نے فرمایا مگر تم ان کی ہجو کیونکر کروگے ،میں بھی تو انہی کے خاندان میں سے ہوں؟ ‘‘حسانؓنے جواب دیا ،میں آپؐکو ان میں سے اس طرح صاف نکال دوں گا، جس طرح گندھے ہوئے آٹے میں سے بال‘‘ آنحضرتؐ نے اجازت دی اور دعا کی ۔ پھر بہت سے شعراء نے رسول اللہؐ کی مدح کی کچھ اشعار اور شعرا کا نام پیش کرتا ہوں:
حسان بن ثابت ؎
واَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني۔ وَاَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ
خُلِقتَ مُبَرَّءً مِن كُلِّ عَيبٍ ۔كَاَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاء
ترجمہ :۔
تجھ سا حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا
تجھ سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا
ہر عیب سے بری تجھے پیدا کیا گیا
گویا جو تو نے چاہا تھا آخر وہی ہوا
متنبي فرماتے ہیں :
أمريد مثل محمد في عصرنا۔ لا تبلنا بطلاب ما لا يلحق
لم يخلق الرحمن مثل محمد۔ أبداً وظني أنه لا يخلق
يا ذا الذي يهب الجزيل وعنده۔ أني عليه بأخذه أتصدق
۱۔ اے وہ شخص جو ہمارے دور میں محمدؐ جیسا دیکھنا چاہتا ہے
ہمیں اسکی طلب (مطلوب) کی مشقت میں مت ڈال
جسکو پایا نہیں جا سکتا (اسکی نظیر نہیں مل سکتی)
۲۔ جبکہ رحمٰن (اللہ تعالی) نے محمدؐ جیسا پیدا نہیں کیا (ہمارے دور میں)
لہٰذا اس جیسے کی نظیر تلاش کرنا محال ہے
اور میرا یقین ہے کہ ان محمدؐ جیسا پیدا نہیں کیا جائے گا
۳۔ اور وہ شخص جو کثرت سے عطیہ کرتا ہے
اور جو یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اسکا عطیہ لوں
تو اس پر اس کو صدقہ کرتا ہوں اور عطیہ کرتا ہوں
ابن الخياط فرماتے ہیں :
كلُّ القُلوبِ إلىَ الحبيبِ تَمِيْل۔ وَمعَي بِهـَذَا شـاهدٌ وَدَلِيِلُ
أَمَّا الدَّلِيِلُ إذَا ذَكرتَ محمدًا۔ فَتَرَى دُمُوعَ العَارِفِيْنَ تسيلُ
هَذا مَقالي فِيْكَ يَا شَرَفَ الورى۔ وَمَدحِي فِيكَ يَا رسولَ اللهِ قَلِيْلُ
هَذَا رَسُــولُ اللهِ هذا المُصْطفى۔ هَذَا لِرَبِ العالمينَ رَسُولُ
ترجمہ : ۔
�تمام قلوب (دل) محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہوتے ہیں
اور میرے پاس اس کی گواہی (شہادت) اور ثبوت موجود ہے
�جہاں تک ثبوت کی بات ہے تو جب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتا ہے۔
تو تُو علماء (عارفین) کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے دیکھتا ہے۔
� اے شرف الوری(جس کا شرف بالا تر ہے) میرا یہ مضمون آپ کے بارے میں ہے۔
اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کی شان میں
میری مدح ہے ( میری کہی گئی مدح)
� یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو چنیدہ ہیں
یہ رب العالمین کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
تو یوں شاعری کی اپنی حیثیت ثابت ہوتی ہے۔
اس کی ایک اور زندہ مثال ہمارے سامنے علامہ اقبال ہے۔ان کہ یہ شعری خاصیت ہے کہ ان کے کلام میں آفاقیت کا رنگ پایا جاتا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ اقبال ایک ایسے مفکر ہیں کہ ان کے ہاں آنے والے وقت کا ادراک اور وجدان بھی ملتا ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے سے مردہ قوم کو جگایا،ا ن میں زندگی کی روح پھونک دی۔آپ وہ عظیم شاعر ہے کہ جو اپنی روایات جدت کے ساتھ چلتے ہیں ۔ان کے کلام میں ماضی،حال اور مسقبل تینوں کا رنگ پایا جاتا ہے ۔
بہت سے شعراء ایسے ہیں جنہوں نے قوم کی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ قوم کے مسائل حالات و واقعات کو قلم بند کیا ،جنہوں نے شاعری کے ذریعے قوم کو جگایا ،ہمارے سامنے علمدار کشمیر شیخ نور دین نورانی کی تعلیمات روشن چراغ کی طرح ہیں۔ ہمیں چاہیے ہم ان کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچائیں تاکہ ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ دینی خدمات کی حق ادائی ہو سکے ۔
[email protected]