سیّدنا ابوذرِغفاری ؓ کی منفرد کہانی

عمر فاروق

شمعِ نبوّت کے ان پروانوں میں ہر ایک کی شان نِرالی ہے ۔کوئی صدیقؓ ہے تو کوئی فاروقؓ ،کوئی ذوالنّورینؓ ہے تو کوئی حیدر ؓ۔کسی کو ذوالفقارؓ کا خطاب ملا تو کسی کو سید الشہداءؓ کا ۔کسی نے خیبر کو فتح کیا تو کسی نے قیصر وکسریٰ کی سلطنتوں کو فضاؤں میں گُم اور ہواؤں میں تحلیل کردیا ۔یہ کون لوگ تھے ؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت میں رہ کر مسِ خام سے کُندن بن جانے والے تھے۔یہ لوگ علم میں پُختہ تر تھے مگر ان کی زندگیاں تکلُّفات سے خالی تھیں ۔یہ وہ تھے جنہیں اللہ نے صحبت ِنبوی اور اِقامتِ دین کے عظیم کام کے لیے چُنا تھا۔ان میں سے اکثر لوگ فقراء و مساکین تھے مگر غربت و افلاس میں بھی یہ لوگ خودی کو نہ بیچنے والے غیرت مند تھے ۔گویا ان پہ یہ شعر صادق آتا ہے ؎
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
یہ لوگ دن کے شہسوار اور راتوں کے عابد و زاہد تھے ۔ان کے دلوں کو اللہ نے اپنے تقویٰ کیلئے چنا تھا۔گویا انبیاء کرام کے بعد آفتاب ان سے زیادہ مقدس ہستیوں پہ طلوع ہوا ہی نہیں۔اسی مبارک جماعت سے تعلق رکھنے والے بڑے ناموں میں سے ایک سیدنا ابوذر غفاری ؓ کا بھی ہے۔آئیے، ان کی منفرد زندگی کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
سیدنا ابوذر غفاری کا اصل نام ’’جندب ‘‘ تھا ۔ ان کا تعلق قبیلۂ غفار سے تھا جو مکہ سے شام و فلسطین جانے والے راستے پر واقع ایک قبیلہ تھا۔یہ خاندان وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو لوٹنے اور ڈاکہ زنی کیلئے مشہور تھا۔جندب جب بڑے ہوئے تو یہ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ نقب زنی میں ملوث ہوئے۔مگر ان کا دل اس پہ مطمئن نہ تھا۔ہوا یوں کہ نفسِ لوّامہ نے ملامت کی اور بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار نے ایسا اثر کیا کہ آئندہ اس قبیح فعل میں شامل نہ ہونے کا عزم کرلیا۔جب مزاج میں یہ تبدیلی واقع ہوئی تو دیگر خاندان والوں سے بن نہ سکی ۔بھائی اُنیس اور والدہ کو ساتھ لے کر اپنے ننیہال چلے گئے۔وہاں بہت مدت تک رہے مگر ایک دن ماموں نے کچھ سخت کہا تو پھر شیشے سے زیادہ نازک مزاج رکھنے والے ابوذر نے وہاں سے بھی کوچ کر کیا ۔بے چارہ ماموں روتے ہوئے پیچھے آرہا تھا کہ خدارا نہ چلے جاؤ ،مجھ سے غلطی ہوگئی۔مگر مزاج میں ایسے ترشی تھی کہ ہر سُنی اَن سُنی کردی ۔
مکہ سے باہر کسی مقام پہ ایک دن بیٹھے تھے کہ ان کے کانوں نے سنا کہ مکہ میں کوئی شخص نبوّت کا دعویٰ کررہا ہے۔فورًا متوجہ ہوئے۔اپنے بھائی اُنیس کو مکہ روانہ کیا کہ خبر لے آئے۔کچھ مدت بعد وہ آئے اور ابوذرؓ سے کہا کہ وہ شخص اچھی عادتوں کی تعلیم دیتا ہے لیکن مکہ کے لوگ اسے کاہن اور شاعر کہتے ہیں۔اُنیس چونکہ خود شاعر تھا ،اس لیے اس نے اس کی خود ہی بروقت تردید کی اور بھائی سے کہا کہ مجھے وہ شخص سچا لگا اور یہ لوگ جھوٹے ! اتنا سننا تھا کہ ابوذر تڑپ اٹھے اور مکہ کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔جیسے انہیں پورا یقین ہو کہ میری سالوں کی پیاس صرف یہیں بُجھ سکتی ہے۔مکہ میں داخل ہوئے مگر کسی سے پوچھے بغیر ہی اپنی مطلوبہ شخصیت کو ڈھونڈنے کا عزم کرلیا۔انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ تیس دن اور تیس راتیں حرم میں ایسے ہی گزریں ۔کھانا ختم ہوا تو کئی دن زم زم کے پانی پہ ہی گزارا کرلیا۔ایک دن آخر ہمت کرکے ایک شخص سے پوچھ لیا کہ جسے تم لوگ صابی (دین حق سے پھرا ہوا یعنی نعوذ بااللہ محمدؐ ) کہتے ہو تو وہ کون ہے ؟ اتنا سننا ہی تھا کہ وہ اور دوسرے کفار اس پہ ٹوٹ پڑے اور اتنا مارا کہ بے ہوش ہوئے۔ذرا یاد کریں کہ ایک دور وہ تھا جب ماموں کی ذرا سی تلخی بھی برداشت نہ ہوسکی مگر آج راہِ وفا کے اس مسافر نے لوگوں کی لاتوں اور گالیوں کو بخوشی برداشت کرلیا۔
ایک دن حضرت علی ؓ نے دیکھا تو مسافر سمجھ کر اپنے گھر لے لیا۔پھر چند دن بعد پھر سے یہیں دیکھا تو پوچھا بھئی کس غرض کے لیے آئے ہو ؟ ابوذر نے مدّعا بیان کیا تو حضرت علی ؓ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ابوذر نے قرآن سنا تو فورا ًایمان لے آئے ۔گویا ان کے دل میں جس نورِ ایمان نے پہلے ہی جگہ بنالی تھی وہ نور اب نورِ وحئ الہٰی سے مل کر مکمل طور پر وجودِ ابوذری کو روشن کرگیا ،اس طرح یہ نورٌ علی نور کی عملی تفسیر ہوئی۔
دنیا کا دستور ہے کہ جب بھی کوئی محبت کرنے والا اپنے محبوب سے ملتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سدا محبوب کی معیّت میں رہے،اسے ہی دیکھتا رہے اور اسی کی باتیں سنتا رہے۔ لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں ہے ۔یہاں قدم قدم پہ بلائیں ہیں ،آزمائشیں ہیں۔حضرت ابوذرؓ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب جانے کو کہا تاکہ وہاں کے لوگوں کو دین حق کا پیغام پہنچادے۔گویا آزمائشوں کے بعد ایک اور آزمائش آں پڑی ۔اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور دل پہ پتھر رکھ کر سید الاولین الآخرین سے جدا ہوئے۔
سال پہ سال گزرتے چلے اور ابوذر ملاقات کے لیے حاضر نہ ہوسکے ۔۵ ہجری کے ابتدائی مہینوں میں ایک کامیاب مبلغ کی حیثیت سے نبی مکرم ﷺ سے پھر سے ملاقات ہوئی۔نہ جانے یہ ماہ و سال ماہتابِ نبوت کو دیکھے بغیر کیسے گزارے ہوں گے اور نہ جانے ہجر کی اس طویل مدّت کو کیسے سہہ لیا ہوگا ؟
ابوذر کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی کوئی حدیث بیان کرتے تو پہلے کہا کرتے کہ ’’ میرے محبوب نے مجھے نصیحت کی یا میرے دوست نے مجھے وصیت کی‘‘اور ان کا شمار اُن صحابہ میں ہوتا ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ سوالات پوچھا کرتے تھے۔حالانکہ اس پہ انہیں کبھی کبھی ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔
جیسے کہ پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت ابوذر ؓ جس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان کا کام ہی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار تھا۔حضور ؐ کا منفرد طریقۂ تربیت بھی دیکھئے کہ آں حضور ﷺ نے ابوذر کے سامنے مال و دنیا کی مذمت میں اتنے ارشادات بیان فرمائے کہ ابوذرؓ پہ ان کا ایسا اثر ہوا کہ جب تک جان قفسِ عُنصُری میں موجود رہی تب تک وہ زُہد و ورع کے امام ہی رہے۔اسی لیے تو ہادئ عا لم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو عیسیٰ ؑ کے زُہد کو دیکھنا چاہے تو وہ ابوذرؓ کو دیکھے ‘‘۔
غزوۂ تبوک کے موقعہ پر ابوذر ؓ کے کردار کو پڑھ کر جذبات میں تموّج پیدا ہوتا ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔جب امام الانبیاءؐ اس مشکل ترین ریگستانی سفر کیلئے اپنے صحابہ کی معیت میں روانہ ہوئے تو ابوذر غفاری ؓ کو غیر حاضر پایا۔صحابہ میں سے کچھ نے کہا کہ ابوذرؓ بھی پیچھے رہ گئے ۔مگر حضورؐ کا دل نہیں مان رہا تھا ۔وجہ یہ تھی انہیں ان کی وفاداری پہ کامل یقین تھا۔آخر کیوں نہ ہوتا ؟
انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو ’’اگر اس میں بہتری ہوگی تو خداوندِ عالم اُسے آپ سے ملائے گا ‘‘ ۔اصل معاملہ یہ تھا کہ ابوذر ؓ کا اونٹ چل نہیں رہا تھا ۔کافی کوشش کی مگر اونٹ کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔قافلہ آگے چلا گیا اور ابوذرؓ پیچھے رہ گئے ۔اس کے بعد ابوذر ؓ نے اپنا سارا سامان اپنی پیٹھ پہ لاددیا اور سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے لیے پیدل چل پڑے ۔
چلتے چلتے دور سے صحابہ نے دیکھ لیا کہ کوئی شخص آرہا ہے۔امام الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل یقین تھا کہ یہ مجھ پہ پانچویں نمبر پہ ایمان لانے والے ابوذر غفاریؓ ہی ہوں گے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دور سے کہہ دیا کہ تو ابوذر ہوجا ۔اور جب وہ قدرے نزدیک آرہے تھے تو آقائے دو جہاںؐ نے حسرت بھرے لہجے میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالی ابوذر ؓ پہ رحم کرے ۔بے چارہ اکیلا چلتا ہے، اکیلا مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا‘‘۔
آپ کے مزاج میں کافی تلخی پائی جاتی تھی۔عوام کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام میں سے بھی جو آپ ؓ سے ملنے آتے تھے اُن پہ بگڑتے سوائے حضرت عمر ؓ کے۔بقولِ مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب کہ ’’حضرت ابوذر کسی کے تقویٰ و زہد ،علم و معرفت کے آگے اگر جھکتے تھے تو وہ صرف ایک وحید ذات حضرت فاروق اعظم ؓ کی نظر آتی ہے ۔‘‘
خاتم النبیّینؐ نے ابوذر کو وصیت کی تھی کہ جب مدینہ کی آبادی جبلِ سلع تک پہنچے تو تم شام کی طرف کوچ کرنا’’حضرت عمر کے دورِ خلافت میں شام چلے گئے اور اسکے بعد مکہ مدینہ بھی آیا کرتے رہتے۔حضرت عثمان ؓ کے دورِ خلافت میں ان سے کہتے کہ مجھے حضورؐ کی قبرِ مبارک کے جوار میں کچھ دن ٹھہرنے کی اجازت دے دو اور وہ اجازت عطا کرتے تھے۔وہ جرّی اتنے تھے کہ حق بات کہنے کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی بالکل بھی پروا نہیں کرتے تھے (لا یخافون لومة لائم ) ۔سونا چاندی جمع کرکے ذخیرہ کرنے کے سخت مخالف تھے اور اکثر سورۃ التوبه کی آیت ۳۴_۳۵ سنایا کرتے تھے۔کہ ’’ جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک سزا کا مژدہ سنادو،جس دن یہ چیزیں جہنم کی آگ میں تپائی جائے گی ،پھر ان کی پیشانی اور پہلو اور پیٹھیں ان سے داغی جائیں گی اور (کہا جائے گا ) کہ یہ وہی ہے جسے تم اپنے لیے جوڑ کر رکھتے تھے اور پھر آج جس چیز کو جوڑ کر رکھتے تھے اس کا مزہ چکھ لو ‘‘۔
اسی مسلۂ کنز پہ ان کا حضرت معاویہؓ اور دیگر صحابہ سے بھی مناظرہ ہوا۔
حضرت ابوذر مسلسل دنیا اور دولتِ دنیا کی مذمت میں آیات اور احادث سناتے تھے۔بہت سے لوگوں کو یہ باتیں ناگوار گزرتیں ۔حضرت معاویہ ؓ کے پاس مسلسل شکایتیں موصول ہوئیں اور انہوں نے مجبوراً منادی کرادی کہ کوئی بھی ابوذرؓ کی مجلس میں شریک نہ ہو اور اسکے ساتھ کوئی بھی نہ بیٹھے۔ابوذر نے سرِ تسلیم خم کرلیا ،مگر ان کی مبارک ذات میں کشش ہی ایسی تھی کہ لوگ پھر بھی انکے ارد گرد بڑی تعداد میں جمع ہوجایا کرتے تھے۔تنگ آ کر حضرت معاویہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو خط لکھا کہ آپ ابوذر کو مدینہ بلوالیجئے۔وہاں پہنچ کر بھی حضرت ابوذر ؓ نے حسبِ معمول ضرورت سے زیادہ مال و دولت کی مذمّت میں باتیں کرنی شروع کیں۔ اس سے وہاں کے امیر لوگوں کے ماتھے پہ شکن آجاتا اور غرباء و مساکین پھولے نہ سماتے ! حضرت عثمان ؓ کو بھی شکایتیں موصول ہوئیں کہ ابوذر غفاری کی وجہ سے فساد برپا ہورہا ہے۔حضرت عثمان ؓ نے اس مسلۂ کنز پہ ان کا کعبِ احبار سے مناظرہ کروادیا لیکن ابوذر نے کعبِ احبار کو یہودی کہہ کر سخت ڈانٹ پلائی۔
مدینہ میں بھی لوگ حضرت ابوذر ؓ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوذر ؓ نے عثمان ؓ سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں زَبدہ چلاجاؤں ۔اسکے بعد اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر مدینہ سے بھی نکل گئے اور پھر تادمِ واپسیں لوٹ کر نہ آئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی حصارِ مدینہ تک حضرت علی ؓہی چھوڑنے کے لیے آئے۔پہلے جو ملے تو وہ علیؓ تھے ،آخر میں بھی جو چھوڑنے آئے تو وہ بھی حضرت علیؓ کی ہی ذاتِ صفات تھی ۔
اب موت کا وقت قریب آلگا۔اُن ہی دنوں منادی کرائی گئی کہ حضرت عثمان ؓ کو اس سال حج کیلئے آنا ہے۔لوگ جوق در جوق چلے گئے اور زبدہ جیسے خالی سا ہوگیا۔۳۲ ہجری کے سال اور ذوالحجہ کی ۸ تاریخ کو ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔بیچاری بوڑھی بیوی کیا کرتی ؟ ۔وہاں سے گزررہے چند نوجوانوں نے غسل دیا اور کفن پہنایا۔اور ادھر سے کوفہ سے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ عمرہ کا احرام باندھے مع ایک جماعت کے مکہ مکرمہ جانے کے ارادے سے تشریف لارہے تھے کہ راستے میں ایک جنازہ دیکھ کر رُکے اور جب معلوم ہوا کہ جنازہ ابوذر کا ہے تو عجیب جذباتی انداز میں فرمایا کہ مبارک ہو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ ’’ابوذر اکیلا ہی چلتا ہے،اکیلا ہی مرے گا اور اکیلا ہی اٹھے گا‘‘۔ابنِ مسعود ؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس وارفتہ غلام کی زندگی اختتام کو پہنچی۔اسکے بعد انہوں نے حضرت ابوذر ؓ کے تمام اہل و عیال کو ساتھ لے کر حضرت عثمان ؓ کے حوالے کردیا اور حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوذرؓ کے بال بچوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ ملادیا اور ان کی پرورش کا بیڑا اٹھایا ۔
[email protected]>