سیاسی جماعتیں اندیشوں میں مبتلا !

یوں تو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کادوسرا دور بھی مکمل ہوچکا ہے۔ پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ اتر پردیش ریاست موضوع سخن بنی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ بالکل صاف ہے ہر بھارتی جانتا ہے کہ مرکز میں حکومت کا راستہ اُتر پردیش سے ہی گزرتا ہے، یعنی کہ جس پارٹی نے اتر پردیش میں اپنا پرچم لہرا دیا، مرکز میں حکومت بنانے کے لیے 60 فیصد امکانات اسی کے نظر آتے ہیں ۔
اس بار اتر پردیش کا انتخاب پچھلے انتخاب کی مانند یک طرفہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کوئی ایک پارٹی 'کلین سوئیپ 'کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ہر پارٹی کے دل میں خوش گمانیوں سے زیادہ فکر و تشویش، خدشات نے انہیں سیاہ حصار میں لے رکھا ہے۔میں کانگریس تو پہلے ہی کہہ چکی ہے" ہر انتخابات صرف جیتنے کے لیے نہیں لڑا جاتا " لیکن ہاں!سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار البتہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ پرینکا گاندھی نے جس طرح کمان سنبھال رکھی ہے۔ عوام کے درمیان میں گھر گھر جاکر سب سے ملتی رہی،  ان کے مسائل میں دل چسپی لیتی رہی،ان کی بنیادی ضرورتوں کی بات کرتی رہی اور پھر خواتین کی سیاست میں  60 فیصد حصے داری کی صرف بات ہی نہیں کہ بلکہ خواتین کے درمیان ٹکٹیں بھی تقسیم کیں اور پھر یہ نعرہ ’’ لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں‘‘ جیسے پر کشش نعرےکے تحت عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہیں،اُس سے لگتا ہےکہ کانگریس سابقہ انتخابات کی بہ نسبت اس بار اُتر پردیش میں کچھ بہتر مظاہرہ کرنے والی ہے۔ مطلب کہ اس کی چند سیٹوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
برسر اقتدار پارٹی اس بار بری طرح بدحواس اور الجھن کا شکار نظر آرہی ہے۔ ان کے بڑے رہنماوؤں کے جس نوعیت کے غیر ذمے دار اور سطحی قسم کے بیانات ایک کے بعد ایک آ تےرہے ہیں۔ جس طرح کی زباں استعمال وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیراعلی یوگی جیسے اہم اور بڑے رہنما کررہے ہیں۔ ان کی بے اطمینانی ، پریشانیوں کا واضح اظہار عوام با آسانی محسوس کررہے ہیں۔حال ہی میں وزیر اعظم نے راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے متعلق ایوان میں جو لہجہ اور زباں استعمال کی۔ اُسے سن کر ہر کوئی انگشت بدنداں ہے ۔ یہ زباںاستعمال کرنے سے پہلے سیاسی رہنما ضرور سوچتے ہیں کہ ہم کیا کہنے جارہے ہیں ۔ملک کے وزیر اعظم کی تقاریر یا خطاب صرف ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی سنا جاتاہے۔ انھیں اس بات کا بھی لحظ رکھنا پڑتا ہے۔
ظاہر ہے کہ پریشانیاں چھپانے سے پریشانیاں مزیدبڑھ جاتی ہیں جو چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ جس طرح سماج وادی بشمول اتحادی جماعت میں عوام کا جم غفیر امڈتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بیشتر مقامات میںبی جے پی کو اس سردی کےموسم میں پسینہ بہتا دکھائی دے رہا ہے۔میں اس کے اسباب و علل کی بات کرنا نہیں چاہتی ،کیونکہ پچھلے ایک ماہ میں کافی کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے  اس لئےان باتوں کا اعادہ کارعبث سمجھتی ہوں۔یہ سب دیکھتے ہوئے ہمیں جہاں ماضی قریب میں ہوئے بنگال اسمبلی انتخاب کے نتائج یاد آرہے ہیں، جہاں بر سر اقتدار رہتے ہوئے ممتا بنرجی نے فتح حاصل کی۔ اس کے بعد تو بی جے پی کے عروج کا گراف ملک کی میں گرتا چلاآرہاہے۔ حتی کہ جہاں وہ فتح یاب بھی ہوئی بی تو اس کی نشستیں  پہلے کے مقابلے میںکم ہونگی اور ووٹ فیصد میں بھی کافی کمی پائی جائے گی ،خواہ وہ ریاست ہریانہ ہو یا کوئی اور ریاست ۔لیکن مجھے نہ جانے کیوں شدت سے ریاستِ بہار کی یاد آرہی ہے، جہاں ہر کوئی(ہر کوئی سے مراد سیاسی مبصرین ، اور غیر سرکاری اکزٹ پول یعنی کہ گودی میڈیا کے اکزٹ پول نہیں ) یہ کہتا نظر آیا تھا کہ اس بار تیجسوی یادو بازی مار لیں گے، لیکن جب نتیجہ آیا سب بھونچکا رہ گئے اور پھر 'تیجسوی کی حکمت عملی اور جارحانہ انداز میں رطب اللسان رہنے والے سارے مبصرین بادل ناخواستہ ہی سہی لیکن جو جیتا وہی سکندر کی مدح سرائی پہ مجبور ہوئے ۔
حالاں کہ آف ریکارڈ یہ کہتے ہوئے یہی مبصرین پائے گئے کہ 'ای وی ایم ' کے کھیل نے حکمراں جماعت سے حکومت چھیننے میں ناکام رہی۔ مینجمینٹ 'نے پانسہ پلٹ دیا۔اور یہ الزام پہلی بار عائد نہیں کیا گیا، ازیں قبل ہر انتخاب میں لگتا رہا ہے۔ یاد کریں 2019ء کے لوک سبھا کے  انتخابات ۔جب اتر پردیش میں سماج وادی  کےایک جیتے ہوئے مسلم امیدوار نے کس طرح نامہ نگار سے آن لائن ساری تفصیلات بیان کی تھی ۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اکھلیش یادو کو صرف امنڈتی بھیڑ پر خوش ہوکر خواب خرگوش میں نہیں رہنا چاہئے ۔کیوں کہ ہر حکمراں جماعت ہمیشہ انتخابات میں دام سام دنڈ ' کا استعمال کرتی رہی ہے۔جب ای وی ایم مشین نہیں ہوا کرتی تھی اُس وقت بھی ووٹ بکس لوٹنے کے قصے ہم سنا کرتے ہیں ۔
بہر حال ! اس بار یوپی انتخاب نہایت ہی دلچسپ اور مشکل نظر آرہا ہے۔ راہ کسی کے لیے بھی آسان نہیں ، ہر گزرتے لمحوں کے ساتھ دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ انتخاب گویا کرکٹ کا وہ میچ بن کر رہ گیا ہے کہ آخری بال پر 4 یا 6 کی ضرورت ہے ،جسے ضعیف الاعتقاد 'کرشمہ یاکرامت سے تعبیر کرتے ہیں اورکرکٹ کمنٹری کرتے ہوئے اکثر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ دونوں ٹیم کی حالت" کرو یا مرو" جیسی ہے۔ ناظرین کی دھڑکن تھمی ہوئی۔ گھٹن جیسا ماحول "آر ہوجا یا پار ہو جا"۔تو ایسی ہے صورت حال سےدوچار ملک کا ہر باشندہ 9؍مارچ تک منتظر دم سادھے بیٹھا ہے ۔
Jabeennazan [email protected]