سفرِ سعادت کی داستانِ جذب و شوق ذکرِ خیر

بشارت بشیرؔ
  ہاں۔ بطحا قریش کی اس بستی میں جامع امام احمد ابن حنبل ؒ میں کئی بار سجدہ ریز ہوا تو اس صاحب دعوت و عزیمت کی قربانیوں کی تاریخ کا ورق ورق سامنے آتا رہا اور اس روشنی میں اپنے علماء و مقلاء کو دیکھا تو شرمند گی کا احساس ہوا، عربوں کے بات بات پر بارک اللہ اور ہداک اللہ کے دعائیہ کلمات روح و دل مسرور کئے دیتے ہیںاور ہاں ، پھر وہ ساعت ہمایوں آہی گئی جب آٹھویں ذوالحجہ کو ہمارا قافلہ شب کو سوئے منی روانہ ہوا ، منی ، جو تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ خود ایک تاریخ ہے، جہاںچشم فلک نے بوڑھے باپ کو اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان گاہ کی جانب لے جادیکھا ہے ، ہاں! ہنسی خوشی بیٹے کا اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے انداز سے بھی واقف ہے، منیٰ، جہاں اس وقت بھی جب نبی دوعالم ؐ پر مکہ کی زمین تنگ کی جارہی تھی ، مدینہ کے کچھ سعادت مندوں نے رات کی تاریکی میں ہی ان سے عہد وفا باندھا اور وارد مدینہ ہونے کی درخواست دی۔ منیٰ جہاں غارو المرسلات بھی ہے جس کی آخری آیت امت کو خاص پیغام دے گئی، منیٰ ، جہاں مسجد خیف بھی ہے جہاں کئی انبیاء و رسل نے بارگاہ صمدیت میں سر نیاز خم کئے ہیں۔ ہاں منی، جہاں آج رابطہ عالم اسلامی کا مرکز گیسٹ ہاؤس بھی ہے، جہاں اس ادارے کی جانب سے خصوصی دعوت پر آنے والے مہمانان گرامی کے قیام و طعام کا بندوبست رہتا ہے، اس منیٰ میں ظہر و عصر کی نماز قصر کے ساتھ باجماعت ادا کی، نوویں ذوالحجہ کی شب کو ہی عرفات کی جانب روانگی کی ہدایت ملی، فجر کے قریب میدان عرفات میں پہنچ گئے ۔ نماز کی باجماعت ادائیگی میری ہی پیشوائی میں ہوئی، جبل رحمت کو دور سے دیکھ لیا حضور اکرمؐ نے یہاں ہی خطبہ حجۃ الوداع دیا تھا اور انسانیت کو ایک خاس منشور سے نوازا تھا، یہاں ہی اخوت و مساوات کا درس ملا تھا، یہاں ہی آپؐ نے دنیا سے وداع ہونے کے واضح اشارات دئے تھے، یہاں ہی کہا گیا تھا کہ تمہیں حسب و نسب اور رنگ خون کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ، معیار صرف تقویٰ ہے، قومیت اور قبیلے نہیں، عرفات کا یہ بے مثال عظیم اجتماع بزبان حال گو یا تھا۔
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ طورانی نہ افغانی
مسجد نمرہ میں خطیب نے خطبہ دیا، خیمے میں ظہر و عصر کی نمازیں قصر کے ساتھ پھر میری ہی پیشیوائی میں سینکڑوں بندگانِ خدا نے ادا کی ، پھر ایستادہ دعاؤں کا ایسا دور چلا کہ ہر سو آہ بکا کی صدائیں سنائی دینے لگیں، ہاں یہاں نمازوں کے علاوہ صرف اذکار و تلاوت و مناجات کا حکم ہے، اور اس مقام پر ٹھہرنے کو ہی کلام نبوی ؐ  میںحج کہتے ہیں، جس نے وقوف کیا، حج ہوا، جویہاں نہ آسکا کوئی فدیہ بدلہ یا نذر و نیاز اسکا بدل نہیں، آخر یہ وقوف عرفات ہے کیا؟ میرے سامنے اس وقت بھی مصر کے ایک  نامور مفکر کی ایک زندہ جاوید تحریر کایہ اقتباس ہے۔ آپ کو بھی حج کی یہ سعادت حاصل ہو، تو اس عبارت کو بطور خاص ذہن نشین رکھئے، اس اجتماع عرفات کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ باریک رگیں کیسے جسم کے کناروں سے خون اٹھاکر بڑی بڑی رگوں میں پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ وہ خود اپنا چکر پورا کرلیتا ہے، دل میں اکھٹاہوکر اور پھیپھڑے میں منتشر ہوکر پھر وہ گدلے پن کے بعد صاف ہوتا ہے۔ اور متحرک رگوں میں نیا سرخ خون بن کر لوٹتا ہے۔ بعد اس کے کہ وہ رگوں میں کالا اور فاسد خون کی شکل میں تھا، ایسے ہی حج ہے۔ مسلمان زمین کے چاروں طرف سے آتے ہیں، پھر عرفات میں جو اسلامی جسم میں پھیپھڑے کی حیثیت رکھتا ہے منتشر ہوجاتے ہیں، تو یہ پھیپھڑا ان کے نفس کو شہوتوں کے گدلے پن سے صاف کردیتا ہے اور گناہوں کے میل سے پاک کردیتا ہے اور وہ اپنے وطن کو اس حال میں لوٹتے ہیں کہ اپنے نفس کو جدید نفس میں بدلے رہتے ہیں، گویا یہ نفس گناہوں کو جانتی ہی نہ تھی‘‘
جی ہاں! عرفات میں تو سب گناہوں کی ایسی بخشش ہوتی ہے جسکا کوئی حد و حساب نہیں ، بہر حال نماز مغرب کا وقت قریب تھا، عقل تو کہتی ہے کہ نماز ادا کی جائے پھر چلا جائے لیکن حکم یہ  ہے کہ اٹھو اور مغرب و عشاء ایک ساتھ مزدلفہ میں ادا کرو، اللہ کے دیوانوں کے قافلوں کے قافلے مزدلفہ پہنچے، مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں ، کنکریاں چن لیں، صبح پھر منیٰ روانگی ہوئی، جمرہ عقبہ کی رمی اللہ اکبر کہتے ہوئے کی، ہاں اللہ ہی سب سے بڑا ہے، قانون سازی اور حکمرانی اسی کو زیب دیتی ہے، باقی ہر شئے فانی ہے ۔ اب قربانی کا عمل تھا ختم ہوا، پھر منڈاہوا سر منڈایا۔ کہ اس میں رضائے رب ہے پھر سوئے کعبہ چلے، طواف و سعی سے فراغت ہوئی ، پھر دعاؤں کا سلسلہ چل پڑا، پھر منی کی جانب لوٹے، ۱۱؍ اور ۱۲ ؍ ذوالحجہ کو پھر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حجاج یہ عہد کرتے ہوئے لوٹتے ہیں کہ ہر شیطانی اکساہٹ کو بھانپ کر اسکے شر سے بچنے کی ہر کوشش و سعی کریں گے۔ ۱۲؍ذوالحجہ رہائش گاہ کی جانب واپسی ہوئی۔ حج کا مرحلہ اختتام کو پہنچ گیا، اب مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی ؐ کی زیارت کے لئے سینوں میں رقصاں تھا، جب یہ ہدایت ملی کہ یہ سعادت اگلے روز نصیب ہورہی ہے، تو پھر خانہ کعبہ کا رخ کیا پھر درکعبہ پر دستک دیدی اور لگا کہ رحمت رب ہنسی خوشی رخصت کررہی ہے۔ طواف وداع کرتے ہوئے بچشم نم پھر بلانے کی صدادیتا رہا اور لب پر بس ایک ہی صدا تھی۔
خدایا ایں کرم باردگرکن
الوداع اے مکۃ المکرمہ! ہاں اب وہ ساعت سعید آہی گئی جب ہم نے مدینہ النبی ؐ کی جانب رختِ سفر باندھا۔پوری رات اس سفر شوق میں گذر گئی اور جب شہر نبی ؐ میں قدم رکھے تو دل بلیوں اچھل رہا تھا، زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے تھی اس شہر مبارک کی عظمتوں کے کیا کہنے، خود پیغمبر مدنیؐ کا ارشاد ہے کہ (قیامت کے قریب) ایمان سمٹ کر مدینہ میں آئے گا ایسے جیسے سانپ اپنے سوراخ کی طر ف سمٹ کر پناہ لیتا ہے۔ یوں کہئیے کہ اس مقدس سرزمین کا ہر ذرہ ماہتاب اور ہر خار گلوں کا تاج وقار ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی جذب القلوب میں لکھتے ہیں کہ  امام مالکؒ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر یہ کہہ کر سوار نہ ہوتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے ، کہ میں اس مبارک زمین کوگھوڑے کے سم سے نہ روندوں جس پر محبوب خداؐ کے قدم مبارک پڑے ہوں، مدینہ ! جی ہاں مدینہ جس کے باسیوں نے حبیب کبریاؐ سے عہد وفاباندھا تو لاج کچھ اس طرح رکھی کہ فلک پیرا اس جانثاری پر ہنوز عش عش کرتا نظر آرہا ہے۔ہم کیا اور ہمارے اوقات ہی کیا ۔ دنیا کے بڑے صلحا ء عبقری شخصیات ، اولیاء ، علماء ، اتقیاواصفیا اس مبارک سرزمین میں کیا آئے، تو ادب و تعظیم کے ایسے نقوش چھوڑگئے جو ابدتک نمونہ عمل بنے رہیں  گے، اقبال تو ساری عمر اس شہر منور کے تعلق سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار یوں کرتا رہا۔
خاک یثرب ازدوعالم خود شتراست اے خنک شہرے کہ آجناد،لبرداست
دور سے محبوب خدا ؐ کی مسجد کے دروبام نظر آنے لگے ،گنبد خضراء آنکھوں میں سماگیا تو روح و دل نے عجب طرح کی لذت محسوس کی،  شوق گویا تھا کہ دوڑ کے چلو اور ادب کا تقاضا تھا آہستہ آہستہ خرام ،مقام مقدس کی عظمتوں کو پیش نظر رکھ۔ عجب بیم و مسرت کا عالم تھا، صحن مسجد نبوی میں قدم کیا رکھا وجود میں ارتعاش پیدا ہوا، زبان خوددرودوسلام کا ورد کرنے لگی، کہاں میں کہاں مولا کی یہ کرم نوازیاں، اپنی قسمت پر خود رشک ہونے لگا، مسجد میں داخل کیا ہوا عجب وارفتگی کا عالم تھا، دل چاہتا تھا کہ نظریں بچھاؤں یا قلب و جگر قربان کردوں ، دو رکعت نماز بہ چشم نم ادا کی اور پھر دل روضۂ محبوب ؐ کی جانب فوری طور جانے کا خواہشمند ، آخر یہ امید بھی بھر آئی، ہزاروں لوگوں کی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل ہوا، یہ آسمان کے نیچے سب سے برتر ادب گاہ ہے یہاں کوئی شورشغب نہیں اور نہ کوئی اچھل کود، اس مقام کے ادب کے حوالہ سے قرآنی آیات خود اس روضہ کی جالی پر تحریر ہیں، سسکیوں اور ہچکیوں کا عجب عالم تھا، ہر شخص درود و سلام کی سوغات لئے روضہ انور کے سامنے سے گزر رہا تھا، میری بد اعمالیاں مجھے خون کے آنسو رلارہی تھیں،آپ ؐ کے مبارک روضے کے سامنے کیا گیا ، ایسا لگا کہ خود اپنے پر قابو پا نہیں رہا ہوں، امت کا درد اور اپنے محور سے اس کی دوری کے نتائج بھی سامنے تھے، اپنے عروج کا زمانہ بھی یاد آرہا تھا، اور زوال کی خون چکاں داستان بھی۔ آقاؐ کے سامنے درود سلام کانذرانہ پیش کیا کیا کہ روتے روتے آواز رندھ ہوگئی۔ محبوب ؐ کے دو عظیم ساتھیوں کی مبارک قبور سے گذرا ، سلام عقیدت پیش کیا تو ایک تاریخ آنکھوں میں پھرنے لگی، ان کی جاں بازیاں او ر وفاداریاں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں، حجرہ عائشہؓ اس کی عظمتیں اور اس میں بار بار جبرئیل امین ؑ کا وحی ربانی لے کر آنا ایسا لگا جیسے ابھی یہ سب کچھ ہورہا ہے، حسانی مدح اور انتقال نبویؐ پر ان کے جگر خراش جذبات آج بھی مقدس جالی کے اوپر تحریر نظر آئے جو دل کی دنیا کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتے ہیں، یہاں زیادہ دیر ٹھہرا نہیں جاسکتا کہ قافلوں کے قافلے اس سعادت سے بہرور ہونے کے لئے قطا ر اندر قطار اپنی باری کے منتظر نظر آتے ہیں ، باہر آگیا آنسو پونچھ لئے کچھ دیر صحن مقدس میں بیٹھ گیا، اور حسانؓ وجامیؒ کا محبوبؐ کے تئیں نذرانہ عقیدت خودبخود زبان پر آگیا۔ عجب وارفتگی کا عالم تھا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، مسجد نبوی میں آمد اور نمازوں کی بلاناغہ ادائیگی ہوتی رہی، یہ مسجد ہے کیا؟ دراصل اس کی ہر شئے سے ایک تاریخ وابستہ ہے، اس کی باطنی عظمتوں کے کیا کہنے۔ اس کا ظاہری جلال و جمال بھی مبہوت کرکے رکھدیتا ہے ، چلئے کچھ اس حوالہ سے بات ہو، توسیع نبویؐ سے لے کر اب تک ۹بار یہ وسعت پاچکی ہے اور آج اس میں ۵۳۵۰۰۰ نمازیوں کی گنجائش موجود ہے اس کی بلند وبالا اور دل کش میناروں کی تعداد دس ہے، متحرک گنبد حرکت میں آتے ہیں تو عجب سماں بندھ جاتا ہے، تعداد کے اعتبار سے یہ ۲۷ ہیں جن پر ۶۸ کلو گرام سونا استعمال ہوا ہے۔ عام سیڑھیوں کے علاوہ چار متحرک سیڑھیاں زائرین کو دوسری منزل پر پہنچانے کی سہولیت فراہم کرتی ہیں۔ مسجد میں ۵۴۳ نگران کیمرے ہر نمازی کے حرکات وسکنات عکس بند کرتے رہتے ہیں ،مسجد کے گرد مبارک صحن کا رقبہ ۰۰۰ــ۲۳۵ ہزار میٹر ہے ، گرینائٹ پتھروں سے  مزیں رقبہ ۴۵۰۰۰ مربع میٹروں پر مشتمل ہے، جی ہاں، مسجد نبوی جہاں قدم قدم پر رحمت رحمان برستی ہے، یہاں ہی ریاض الجنۃ بھی ہے۔ جو کلام نبوی ؐ کی روشنی میں جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہے، یہاں دورکعت نماز کی ادائیگی کے لئے بھیڑ لگی رہتی ہے، خدائے لم یزل کا شکر و سپاس کہ یہ سعادت بھی حاصل رہی، یہاں لگے کئی ستو نوں کو دیکھنے کو تو سب دیکھتے ہیں لیکن ان کی تاریخ سے واقف نہیں ۔ منبر و محراب نبوی ؐ رلارلا کر بے حال کرکے رکھ دیتے ہیں، استوانہ حنانہ پر لگا ستون آج بھی حنانہ کی فراق یار میں جدائی کے موقع کے اضطراروبے قراری کا بزبان حال اظہار کرتا ہے ، استوانہ ابولبابہؓ ،حضرت ابولبابہؓ کے توبہ و داستانِ قبولیت توبہ کی ساری تاریخ بیان کرتا ہے۔ استوانہ سریر اور استوانہ مخلقہ بھی اپنی تاریخ کا اظہا ر بہ زبان حال کرتے ہیں، کاش سبھی زائرین ان باتوں سے واقف ہوں تو جذب شوق کی حدت وشدت میں اضافہ دراضافہ ہوگا۔ عام زایئرین تو ان اہم اور تاریخی مقامات کو بھی دیکھ نہیں پاتے جو مسجد نبوی ؐ کے بالکل گردونواح میں ہیں، ہاں، اس کے متصل ہی عید گاہ ہے جہاں مختلف مواقع اور مقامات پر نبی ؐ نے عیدین و استسقا کی نمازیں اد ا کیں اور یہی میدان ہے جہاں آپ ؐنے نجاشی کی نماز جنازہ کی ادائیگی کرکے نجاشی کی عزتوں اور شہرتوں کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان مقامات پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے مساجد تعمیر کی ہیں، جنوب مغر میں ۳۰۵میٹر کے فاصلے پر مسجد غمامہ ہے اور اس مسجد سے ۴۰ میٹر کے فاصلے پر مسجد علی ابن طالب ؓہے ، سلطان محمدترکی نے ان مساجد میں سے کئی کی دوبارہ تعمیر کی۔ اور ۱۴۱۱ھ میں شاہ فہد نے ان کی مرمت و تجدید کی۔ یہ مساجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، ہاں! یہاںپہ بھی بتاتا چلوں کہ مسجد نبوی سے مغرب کی جانب ۲۰۶ میٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی جگہ بھی ہے جوسقیفہ بنو ساعدہ کے نام سے مشہور ہے، یہاں ہی نبی اکرمؐ کے انتقال پرملال کے موقع پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب عمل میں آیا تھا، آج یہاں ایک الیکٹرک پاور اسٹیشن قائم ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک باغیچہ بھی اور ہاں مسجد نبویؐ کے قریب ہی وہ تاریخی قبرستان بھی ہے جو مزار بقیع کے نام سے موسوم ہے، اس زمین میں کتنے آسمان آسودہ ہیں تاریخ کا مطالعہ بتائے گا، یوں اس میں دس ہزار صحابہ کی تدفین عمل میں آئی ہے  اور مزید کتنے صالحین  ؒاور تابعین ؒاس میں آسودہ ہیں ان اقبال مندانِ ازلی کا کوئی شمار فی الوقت نہیں۔ حضور اکرم ؐ اکثر یہاں تشریف لاکر مدفون حضرات کے لئے بارگاہ ربانی میں ان کی درجات کی بلندی کی دعائیں فرماتے تھے(صحیح مسلم)حضرت عثمان بن مظعونؓ،حضرت عثمان بن عفان ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت رقیہؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، آپؐکے فرزند حضرت ابراہیمؓ او ر حضرت خدیجہ ؓ او ر حضرت میمونہؓ کے سوا ساری ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس اور پوپھیاں صفیہؓ اور عاتکہؓ ، حضرت حسن ؓ، فاطمہ بن اسدؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفرؓ  بھی یہاں ہی آسودہ ہیں اور یہاں ہی حضرت امام مالکؒ ، امام نافعؒ ، امام زید العابدین ؒ، امام جعفر صادقؓ اور حضور ؐ کی رضائی والدہ حلیمہ سعدیہ کی آخری آرام گاہیں بھی ہیں۔اس گورستان میں تاریخ و سیرکا کوئی طالب علم داخل ہوجائے تو اسلام کی تاریخ کا ایک وسیع باب اسے دور بہت دور تک لے جاتا ہے، ہاں اس مزار میں شرکیات و بدعات سے اجتناب کی سخت تاکید بھی ہے اور اہتمام بھی ، شاہ فہد کے زمانہ میں اس کی آخری توسیع ہوئی اور اس کا رقبہ ۱۷۴۹۶۲مربع میٹر ہے۔ جس کے گرد چار میٹر اونچی اور ۱۷۲۶ میٹر لمبی دیوار ہے۔ ہاں شارع قربان پر واقع مسجد قربان اور مسجد بلالؓ تو قربانی کی تاریخ اور بلالی صدائے حق کی یاد ایک بار پھر دلاتی ہیں۔ مسجد قبا کو تو ہماری تاریخ میں اہم ترین اہمیت حاصل ہے، وہی مسجد جس کے بارے میں خدائے قدس نے کہا’’ یہ وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ وہی زیادہ موزون ہے کہ تم اس میں عبادت کے لئے کھڑے ہوں‘‘ مسجد دارخثیمہ بھی اس سے متصل تھی جو شاہ فہد کے دور میں مسجد قبا ء میں ہی شامل کردی گئی ۔ مسجد قبا مسجد نبویؐ شریف سے ۳۲ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور آسانی سے یہاں کے لئے ٹرانسپورٹ دستیاب رہتا ہے۔ مسجد قبلتین کی تاریخ سے سبھی واقف ہوں نہ ہوں نام ضرور سنا ہوگا۔ شارع خالد بن ولید ؓ کے کنارے اور وادی عقیق کے قریب یہ عظیم مرکز عبادت اپنے نام سے ہی اپنی تاریخ بیان کررہا ہے یہ وہ مرکز ہے جہاں امام دوعالم ؐ نے عین نماز کے دوران ہی اپنا مقدس رخ کعبہ کی جانب کردیا۔ ہاں یہاں ہی تحویل قبلہ کا حکم ملا تھا۔ جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۴ میں ہوا ہے ، یہ مرکز عبادت مسجد نبوی ؐ سے ۳۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔  (جاری)
 رابطہ :  9419080306