سرورِ کائناتﷺ کا ذکرِ جمیل

مولانا شعیب احمد

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک کے انمٹ نقوش قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ میں موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں۔ اللہ جلّ جلالہ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی سیرتِ مبارکہ کو قرآن کریم میں انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم کے مقدس اوراق پر موجود آفاقی و الہامی تعلیمات کی روشن کرنیں جہاں چہار دانگِ عالم میں نور بکھیرتی نظر آتی ہیں، وہیں حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی سیرتِ مبارکہ اور حیاتِ طیبّہ کی عکاسی بھی کرتی نظرآتی ہیں۔
چناں چہ قرآن کریم میں نبی کریمؐ کی بعثت ورسالت کا بھی تذکرہ ہے، اور آپؐکی ختم نبوت کا بیان بھی، رسول اللہؐ کےخلقِ عظیم کا ذکر بھی ہے اور آپؐکے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی تعلیم بھی، کہیں مزمّل و مدثّر کی صدائیں ہیں تو کہیں بشیر ونذیر اور رؤف ورحیم کے پیارے القابات۔ قرآن کریم کے مقدس اوراق میں کہیں رسالت مآبؐسے ’’مقامِ محمود‘‘ کی عطا کا وعدہ کیا گیا تو کہیں آپؐ کو ’’ عطائےکوثر ‘‘ کی نوید سنائی گئی۔ کہیں آپؐ کو’’ داعیاً الیٰ اللہ‘‘ (اللہ کی طرف دعوت دینے والے) فرمایا گیا، تو کہیں آپؐ کے ہدایت کے روشن چراغ ہونے کو ’’سراجاً منیراً‘‘سے تعبیر فرمایا گیا۔قرآن کریم میں نبی کریمؐ کا نام نامی اسم گرامی محمدؐ چار مرتبہ آیا ہے۔ (سورۂ آل عمران، سورۃ الاحزاب، سورۂ محمد، سورۃالفتح) جب کہ نبی کریمؐ کے اسم مبارک ’’ احمد‘‘ کا ذکر سورۃ الصف میں ہے۔ سورۃ الانبیاءمیں حضرت محمد مصطفیٰؐ کو رحمۃ للعالمین ( تمام جہانوں کے لئے رحمت) فرمایا گیا۔
سورۂ ن والقلم آیت 3 اور 4 میں فرمایا گیا کہ آپؐ کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا(یعنی ہمیشہ بڑھتا ہی رہے گا)،اور یہ کہ آپؐ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔سورۂ کوثر میں آپؐ کو جہاں حوض کوثر کی عطا کی نوید سنائی گئی، و ہیں آپؐ کے دشمنوں کے بے نام ونشان ہونے کی خبر بھی دی گئی۔سورہ ٔمائدہ آیت67 میں فرمایا گیا: اللہ آپ کو لوگوں (کےشر اور سازشوں) سے بچائے گا۔
نبی کریمؐ کے ساتھ استہزاء کرنےوالوں کے مقابلے میں یہ ارشاد ہوا: بے شک، ہم تمہاری طرف سےان لوگوں سے نمٹنے کے لئے کافی ہیں جو (تمہارا ) مذاق اڑاتے ہیں۔(سورۃ الحجر:95) فرما کر آپؐ کے لئے ذاتِ خداوندی کے کافی ہونے کا یقین دلایا گیا۔’’ الم نشرح لکَ صدرک ‘‘ کے ذریعے آپؐ کی ہمت افزائی فرمائی گئی، تاکہ ابلاغ و انذار کے لئے ہمتِ عالی حاصل ہو۔رب العالمین نے اپنی محبت کے حصول کو رحمۃللعالمین کی اتباع سے مشروط فرما دیا۔ (سورۂ آل عمران : 31) اہل ایمان پر نبی کریمؐ کو اپنی جانوں سے زیادہ مقدّم رکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ چناں چہ فرمایا: ایمان والوں کے لئے نبیؐ، ان کی اپنی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: 6)
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت79 میں سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰؐ سے مقام محمود کی عطا کا وعدہ فرمایا گیا۔جب کفار نے نبی کریمؐ کو طعنے دینا شروع کئےکہ(معاذاللہ)محمدؐ کے ربّ نےانہیں چھوڑ دیا ہے تو الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں چڑھتے دن کی روشنی اور رات کی قسم کھا کر فرمایا : تمہارے پروردگار نے نہ تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ناراض ہوا ہے۔( سورۂ والضحیٰ)سورۃ الضحیٰ ہی میں ارشاد فرمایا گیا: یقین رکھئے کہ آپ کا پروردگار آپ کو عنقریب اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ سورۃ الاحزاب آیت 21 میں رسول اللہؐ کے اسوۂ مبارکہ ( طرزِ زندگی) کو امت کے لئے بہترین قابل تقلید نمونہ قرار دیا گیا ۔
شفیع الامم ، شہریارِ حرم، سحابِ کرم، گنج نعم، شاہِ اُمم، حضرت محمد مصطفیٰؐ کا اعزاز ہے کہ ازراہِ تکریم اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں آپؐ کو نام کی بجائے آپؐ کے منصبی القاب سے یاد فرمایا ہے جو اللہ کے نزدیک آنحضورؐ کی کامل محبوبیت کا مظہر ہے۔ چناں چہ کہیں’’ یآیّھا الرسول‘‘ کا طرز خطاب اپنایا تو کہیں ’’ یآیّھا النبی‘‘ کے ذریعے مخاطب فرمایا، کہیں’’ یآیّھاالمزمل‘‘ کا محبت بھرا انداز اختیار فرمایا تو کہیں’’ یآیّھا المدثر ‘‘ کی دلکش صدا لگائی۔ یہ ہی نہیں بلکہ آپؐ کانام لے کر پکارنا آپؐ کی امت کے لئے ممنوع قرار دیا گیا۔(سورۃ النور:63)اسی طرح آپؐ کے سامنے آواز بلند کرنے کی بھی ممانعت کی گئی۔( سورۃ الحجرات: 2)ان تعلیمات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام،شانِ رفعت اور عظمت کا پتا چلتا ہے۔