سرما سرپر ہے ،تیاریاں کہاں ہیں؟

وادی کشمیر میں سردی کی شدید ترین لہر جاری ہے ۔سردیوں کے موسم میں درجہ حرارت میں کمی صرف اعدادوشمار کی بات نہیں ہے اورنہ ہی برف باری اور برفانی تودے صرف تصویریں لینے کیلئے ہیں۔ کشمیر میں سردیوں میں طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ہم آخر کار ان چھوٹے چھوٹے دیسی ٹوٹکوںپر گزارہ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موسم سرما لاکھوں مختلف مسائل کو جنم دیتا ہے۔ جہاں سردیاں آتے ہی ہمیں اپنے پہناوے میں تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں اور یکایک ہم گرم ملبوسات کا سہارا لیتے ہیں وہیں کانگڑی آج بھی موسم سرما کا جزو لاینفک ہے ۔بلا شبہ سائنسی ترقی کی وجہ سے ہمیں آج کل بہت سارے ایسے آلات دستیاب ہیں جو زمستانی ہوائوں میں ہمیں گرم رکھ سکتی تھیں تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ آلات بھی ہمارے کسی کام نہیں آتے ہیں کیونکہ ان آلات کو چلانے کیلئے درکار بجلی خال خال ہی دستیاب ہوتی ہے ۔کشمیر اور جموںکے سرد علاقوں میں موسم سرما کے دوران بجلی کی عدم فراہمی ایسے مہنگے آلات کے وجود کوہی ختم کر دیتی ہے۔ اب کچھ گرمی دینے والے آلات گیس یا مٹی کے تیل پر چلتے ہیں لیکن وہ بھی عام لوگوں کی رسائی سے باہر ہیں کیونکہ لوگ ان قیمتی حرارتی آلات کو چلانے پر اتناپیسہ خرچ نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سردی ہمیں معذور کر دیتی ہے۔ اس کا سب سے تشویشناک پہلویہ ہے کہ یہ بہت سی بیماریوں کے خطرے کو بڑھاتا ہے جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سی اموات سردی کے مہینوں میں ہوتی ہیں اور انکو آرام سے سردی سے جوڑاجاسکتاہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہرے اور پھسلن کی وجہ سے ہڈیوں اور جوڑوں کے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں جبکہ امراض تنفس کے مسائل پیدا ہونا عام سی بات ہے اور اب تو یہ تحقیق سے بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ سردیوں کے نتیجہ میں فشار خون میںا ضافہ اور سٹروک بھی ہوسکتے ہیں ،نیز حرکت قلب بند ہونے کے معاملات سے بھی ہم نامانوس نہیں ہیں۔ وادی میں ڈاکٹروں نے وقتاً فوقتاً اس بارے میں قیمتی تجاویز جاری کیں اور کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو چوکنا کیا۔ زمستانی ہوائیںخاص طور پر ہمارے خاندان کے بوڑھے افراد کے لئے خطرناک ہیں۔ اگر ہمارے وسائل اجازت دیتے، اور اگر کوئی خیالی انتظامیہ ہوتی، تو سردیوں کے مہینوں کو صحت کی مستقل ایمرجنسی قرار دے کر ضروری انتظامات کئے جانے چاہئے تھے لیکن عملی دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔ہمارے پاس انتہائی نگہداشت والی ایمبولینسوں کا ایک بڑا دستہ ہونا چاہئے جو لوگوں کی ہنگامی طبی صورتحال میں دستیاب رہتی۔یہ ایک عام علم ہے کہ صحت کی ہنگامی حالتو ں ، جیسے حرکت قلب بند ہونے کے معاملات میں ابتدائی چند منٹوں کو سنہری لمحات سمجھا جاتا ہے۔ ہم عام طور پر اس موقع کو گنوا دیتے ہیں اور بہت سی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے انتظامیہ ،خاص طور پر وہ لوگ جو صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ کام کرتے ہیں، کو چاہئے کہ وہ ایک طویل منصوبہ تیار کریںجس میں صحت کے بحران کے حوالے سے چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کو بھی مدنظر رکھیں جن کا ہمیں سردیوں کے ایام میں سامنا رہتا ہے ۔اس کے علاوہ عوامی راحت رسانی کیلئے بجلی کا معقول بندو بست ہونا چاہئے جبکہ برف باری کی صورت میں اشیائے ضروریہ کی وافر دستیابی اور نقل و حمل کو یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ سرما میں نہ بجلی رہتی ہے اور نہ ہی برف باری کے نتیجہ میں سڑکیں ہنگامی بنیادوں پر صاف ہوجاتی ہیں جس کے نتیجہ میں زندگی ساکت ہوکررہ جاتی ہے اور لوگ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دئے جاتے ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب ناممکن ہے ۔دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں سرما چھ ماہ پر محیط ہوتا ہے اور جہاں درجہ حرارت منفی چالیس سے پچاس تک بھی جاتا ہے جبکہ برف کی چادریں ہمہ وقت بچھی رہتی ہیں لیکن ایسے ممالک میں بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے کیونکہ حکومتوں نے ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک منظم منصوبہ تیار کررکھا ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری انتظامیہ بھی دیر سے ہی سہی لیکن بالآخر نیند سے جاگ کر سرما کیلئے ایک مستقل منصوبہ تیار کرے گی تاکہ ہر بار سرما کے آتے آتے ہمیں تیاریوں کے نام پر اجلاسوں پہ اجلاس نہ کرنے پڑیں ۔اگر ایک دفعہ ایک ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بن جاتا ہے اور اس پر سرما میں صد فیصد عمل لازمی قرار دیاجاتا ہے تو پھر نہ عوام کو گونا گوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا اور نہ ہی سرکارکو خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔