زندگی ۔ایک اُلجھی ہوئی داستان ہے ؟ میری بات

سیدہ عطیہ تبسم ۔ڈوڈہ

کیا زندگی صرف موت و حیا ت کا نام ہے یا پھر یہ کوئی الجھی ہوئی داستان ہے۔ کیا زندگی کوئی حسین خواب ہے یا ڈھراونی حقیقت ہے، یا پھر کسی شاعر کی درد بھری شاعری کا نام زندگی ہے۔ زندگی کیا ہے؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے کے لئےقلم اٹھانا یا لب کھولنا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اگر میں زندگی کو پھولوں کی سیج کہوں تو کانٹوں کو شکوہ ہوگا اور اگر خاروں کا بغیچہ کہوں تو گل ناراض ہو جائیں گے۔ خیر زندگی تو زندگی ہے۔ ربّ کی عنایت ہے، اس جہاں میں اِک کرامت ہے۔ آپ کی اور میری حقیقت ہے۔ زندگی حسن و جمال ہے، یہ تو زندہ ہونے کی علامت ہے ۔
یہ نا تو کوئی بے حس لمحہ ہے نا ہی کوئی کٹ تھروٹ کمپٹیشن (Cut throat competition) کا گیم چل رہا ہے، جہاں ہر کھلاڑی ہر قیمت پر اوّل آنے کی جدوجہد میں لگا ہو۔ جمود اور بے حسی کتنی ہی پر سکون اور آرام دہ کیوں نہ ہو، زندہ دل نہیں ہو سکتے۔ جمود انسان کے لہو کو سرد اور احساسات کی روانی کو روک دیتا ہے ۔ اقبال نے یوں کہا ہے:
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہےاک بہانہ
اب اگر زندگی بے حسی کا نام نہیں ہے تو کیا یہ کوئی ایسا خودغرض مقابلہ ہے جہاں انسان کو ہر لمحہ گردش میں رہنا ہے ۔ ایک ایسا کٹ، تھروٹ،کمپٹیشن ،جہاں کسی کو دکھیلنا پڑے، پیچھے کھینچنا پڑے یا کسی کو اپنی عزت افزائی کے لئے رسوا کرنا پڑے ،بس کچھ بھی کر کے اپنی منزلِ مقصود کو حاصل کرنا مقصد ہو ۔ ایک ایسا کمپٹیشن جہا ںاپنی جیت کے آگے کسی کی دردبھری مات نظر نہ آئے۔ جہاں انسانیت انسان پہ ماتم کرے ۔ جہاں’’میری جیت اور میری مات‘‘ کے سوا کچھ بھی کسی کے لئےاہم نہ ہو۔ اشرف المخلوقات کی زندگی کم سے کم یہ تو نہیں ہو سکتی۔ نہیں زندگی کٹ،تھروٹ،کمپٹیشن نہیں ہے۔
پھر کیا ہے اس زندگی کی حقیقت؟ مجھے لگتا ہے یہ زندگی ایک میراتھون ریس (marathon race) ہے۔ ایک ایسی ریس جو گود سے شروع ہوتی ہے اور گور میں جا کر ختم ہوتی ہے۔ ایک اسے ریس جس میں ڈایرکٹ (direct) کوئی کسی کا کمپٹنٹ (competent) نہیں ہے۔ ہر کسی کی اپنی زمین اور اپنا آسمان ہے۔ ہر کسی کے حالات، جذبات، احساسات، تصورات اور خیالات اتنے الگ ہیں کہ ان کا آپس میں کیا ہی موازنہ کیا جائے اور بھلا کیوں؟
وہ جس کے سر پر آسمان ابر آلود ہو اور پیروں تلے زمین بوسیدہ، اس کے لئے شاید زندگی محرومیوں کا نام ہے۔ یا پھر کبھی نہ ختم ہونے والی تنہائیاں ہے ۔ ایسے ہی احساسات کو محسوس کرنے والے شاعر (جون ایلیا) نے زندگی کو کچھ اس طرح سمجھا ہے:
جو گذاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گذاری ہے
مگر وہ انسان جس کا آسمان چاند تاروں سے سجا ہوا ہو اور زمین بھی قدرے ٹھہری ہوئی ہو ،اس کے لئے شاید زندگی گھٹاٹوپ اندھیروں کا نام نہیں ہے۔ اندھیروں کا احساس تو ہے مگر تاروں کا سہارا بھی ہے۔ اس کی راتیں مزیّن ہیں ۔ شاید ایسے اشخاص کے لئے زندگی کوئی مڈل کلاس (middle class) مقام ہے، جہاں سے وہ کبھی خوف کا منظر دیکھتا ہے تو کبھی امن کے نظارے۔
مگر اکثر یہ سوچ ذہن میں گردش کرتی ہے وہ شخص جس کے آسمان پر سورج پوری تابناکی سے چمک رہاہو اس کے لئے زندگی کیا ہے؟ عام فہم زبان میں کہیں تو وہ شخص جس کا مرتبہ اونچا ہو، جس کی کلاس ہائی ہو، جس کی زندگی میں کسی بھی مادی چیز کی کوئی کمی نہ ہو، ان کےلئےتو زندگی پھولوں کی سیج ہونی چاہئے ۔ مگر نہیں ہے بالکل نہیں ہے۔ کوئی خلش، کوئی کمی، کوئی تھکن، کوئی خوف، کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ انہیں بھی چبھتا ضرور ہے ۔ شاید آسمان کی اتنی صفائی خلتی ہے یا پھر سورج کی تابناکی برداشت سے باہر ہے ۔جو بھی ہو مختصر یہ کہ زندگی کسی کے لئے مکمل نہیں ہے یہاں پرفکشن (perfection) بس اک سراب ہے ،جسے پانے کے چکر میں ہم حقیقت کھو بیٹھتے ہیں ۔ اس زندگی میں ہر کسی کی نگاہوں میں کوئی ایسا عکس ضرور ہوتا ہے جس کے ساتھ اُس کی سانسیں جڑی ہوں ۔ وہ عکس دِکھتا قریب ہے مگر ہوتا بہت دور ہے۔ اُس عکس کو پانے کی چاہ میں وہ چلتا ہے، تھکتا ہے، گرتا ہے، ہارتا ہے، ٹوٹتا ہے مگر پھر اُٹھتا ہے اور ریس کو کنٹینیو (continue) کرتا ہے ۔ بس خود سے جڑے اُس عکس کو ڈھونڈنا اور پھر پانے میں اپنی جان لگا دینا یہی تو زندگی ہے۔
9797875771
[email protected]