رمضان کے روشن پہلواور انفرادی و اجتماعی تربیت ! فکر و فہم

 عذراء زمرود۔ کولگام

پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کو قانع اور مستحکم کرتا ہے، اور اس کے اس عہد کی تجدید کی خدمت انجام دیتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کی مرضی اور حکم سے ہے۔ جو چیز اُفق پر روشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی، وہ صرف اس کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردوں گا۔ اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا۔ یہ ہے روزے کا پہلا روشن ترین پہلو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دیتی ہے اور اسی کیفیت اور رویے کا نام ہے تقویٰ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ روزے کے ذریعہ سے رمضان کے مہینے کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ یہ روزہ ایک مقدس عبادت اور ہماری اخلاقی و روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ پھر ہم جانتے ہیں کہ ضبط نفس، فرض شناسی اور تقویٰ کے بغیر اعلیٰ تربیت ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں صاف لفظوں میں ارشاد ہوا ہے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ ۲:۱۸۳)
تقویٰ کا مطلب ہوتاہے احساسِ ذمہ داری، ضبطِ نفس، خدا ترسی، بڑی حقیقت کے پیش نظر چھوٹی چیزوں سے صرفِ نظر کرنا۔ خواہشات سے مغلوب انسان نہ تو خدا کی عظمت اور اس کی بزرگی کا صحیح احساس کرسکتا ہے اور نہ وہ زندگی کی اعلیٰ قدروں اور اعلیٰ حقیقتوں کو محسوس کرسکتا ہے، اور نہ اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ راہِ خدا پر چل سکے۔
روزہ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہے کہ اکل و شرب اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہی پوری زندگی نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ کچھ اعلیٰ حقیقتیں بھی ہیں ، وہی اصل سرمایۂ حیات ہیں۔ روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی صبح طلوع فجر سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی خواہش کے پورا کرنے سے رُکا رہے لیکن اپنی روح اور اسپرٹ کے لحاظ سے روزہ حقیقت میں اس چیز کا نام ہے کہ آدمی کو اپنی خواہشات پر قابو ہو اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ اس کی نگاہیں عفیف ہوں اور اس کی زندگی پاکیزگی اور خدا ترسی کی آئینہ دار ہو۔ روزہ کا مطلب یہ ہے کہ روزے کی حالت میں تو وہ کھانے پینے اور جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے باز رہے لیکن گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔
روزے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیاے کرام ؑ کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب اس حالت میں دی گئی جب وہ روزے سے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اس وقت ہوا جب آپؐ وہاں مسلسل روزوں کی حالت میں تھے اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت اور داعیہ پیدا کرنے والی ہدایت ہے۔
ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کی معنویت کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ پورا مہینہ ہماری فکری، روحانی اور عملی تربیت کے لیے خاص کردیا گیا ہے۔ پھر تربیت کے لیے ان تمام لوازمات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جو ہماری روح کی بالیدگی اور ہماری سیرت کی تعمیر میں معاون ہوتے ہیں، رمضان میں ہماری جس تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے وہ کوئی ادھوری اور ناقص تربیت ہرگز نہیں ہے۔ اس تربیت سے مطلوب یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ اپنی انفرادی زندگی میں صالح اور نیک بن سکے بلکہ اسے اجتماعیت کا بھی شعور ہو اور وہ اجتماعی تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی اعلیٰ کردار یا اعلیٰ اخلاق کا تصور ممکن نہیں۔ خدا کے مطلوب انسان وہی ہوسکتے ہیں جو اپنی انفرادی زندگی میں بھی بہترین انسان ثابت ہوسکیں اور جو اجتماعی زندگی سے بھی فرار اختیار نہ کریں بلکہ اس پہلو سے بھی اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتے ہوں۔ اس کی وضاحت خود قرآن میں ہے:’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے اور ہدایت اور امتیاز حق و باطل کی دلیلوں کے ساتھ۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس مہینہ میں موجود ہو اسے چاہئے کہ اس کے روزے رکھے ۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۵)
ہماری تربیت کے لیے ماہ رمضان کو منتخب کیا گیا، اور اس کا رشتہ واضح طور پر قرآن مجید سے قائم کیا گیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد رمضان کے روزوں کے مقصد سے مختلف نہیں ہے۔ قرآن انسانی زندگی کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوا ہے، اور اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ دلائل و بصائر کی روشنی میں حق کو پالیں، اور ان کے اندر حق و باطل میں فرق و امتیاز کرنے کی پوری صلاحیت پیدا ہوجائے۔ وہ کبھی بھی دھوکا کھاکر باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ان کے قدم کسی حال میں بھی غلط راہوں پر نہ پڑیں۔ وہ اتنے بلند ہوجائیں کہ پستیاں انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام رہ جائیں۔ وہ حق کی روشنی کے ایسے قدر شناس ہوں کہ اندھیرے کبھی انہیں اپنے اندر گم نہ کرسکیں۔لہزا یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہم قرآن کے مقصدِ حیات، اس سے تعلق کی بنیادوں اور ان کے تقاضوں پر اپنی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایک طرف رمضان کے روزوں کو مکمل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو ذمہ داری ہمھیں ادا کرنی ہے اور پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے وہ اعلاے کلمۃ الحق ہے، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقے سے کریں جو ہمھیں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور دکھایا ہے۔(جاری)
[email protected]