رمضان کے روشن پہلواور انفرادی و اجتماعی تربیت ! قسط۔(۲) فکرو فہم

عذراء زمرود۔ کولگام

دراصل اسلام کے عطا کردہ نظام عبادت میں جہاں ہر مسلمان کے لئے انفرادی طور پر عبادت و بندگی کے ذریعہ قرب خداوندی پانے کا حکم ہے وہاں اجتماعی طور پر پورے معاشرے میں بندگی و عبادت کے عملی اظہار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جس سے افراد معاشرہ میں ممکنہ حد تک توازن پیدا ہو اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ جس میں ہر مسلمان خودی و خودداری کے مستحسن احساس کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اس حوالے سے روزے کے چند اہم سماجی و معاشرتی اثرات مختصر نکات کی صورت میں ملاحظہ ہوں:
1۔ روزہ رکھنے سے اہل ثروت کے دلوں میں اکثر فاقہ سے رہنے والے دوسرے انسانوں کے لئے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ روزہ کی صورت میں عملی طور پر بھوک اور پیاس کے تجربہ سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
2۔ بھوک اور پیاس کا یہ تجربہ انہیں غریبوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کی مدد پر ابھارتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں محسن و کریم آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت موسلا دھار بارش کی مانند ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں یوں تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے مگر ماہ رمضان میں جب جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو عام دنوں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ (ظاہر ہے کہ یہ سخاوت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی امت کے غرباء پر ہی تھی)۔
3۔ ماہ رمضان میں بالعموم لوگ صدقہ فطر کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور عام صدقہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ایک طرف دلوں سے دنیا کی محبت نکلتی ہے تو دوسری طرف صدقہ و زکوٰۃ کی ان رقوم سے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مالی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں معاشی عدم توازن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میں صدقہ و خیرات کی رغبت دلاتے ہوئے اس کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔
4۔ روزہ رکھنے سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے افراد کے اندر اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
5۔ ماہ رمضان میں سحری و افطاری کی اوقات کار کے مطابق انجام دہی وقت کی پابندی کا درس ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی و عروج کی منزل نشیں ہوتی ہیں جو وقت کی قدر کو پہچانتی ہیں اور اپنے فرائض کو وقت پر ادا کرتی ہیں۔
6۔ ماہ رمضان میں معاشرے کی اخلاقی، قانونی، تہذیبی اور اجتماعی اصلاح کی فضا پیدا کرتا ہے۔ مسلم معاشرے کے تمام افراد کے اندر زبردست جماعتی احساس پیدا کرتا ہے۔
7۔ روزہ امت مسلمہ میں ایک عالمگیر برادری کے احساس کو پختہ کرتا ہے۔
8۔ نسلی اور طبقاتی تفاخر کو ختم کرنے میں روزہ اہم ترین کردار ادا کرتا ہے کہ جب افطاری کے وقت امیر و غریب سب ایک دستر خوان پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر خوشی و مسرت کی فضا میں روزہ افطار کرتے ہیں۔
9۔ روزہ معاشرے میں رہتے ہوئے روزہ داروں کو ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس بھی دلاتا ہے اور پھر تکلیف میں مبتلا دوسرے بھائی کو اس سے نجات دلانے کے لئے اس کی مدد کرنے کے جذبات کو ابھارتا ہے۔
بہرحال ماہ رمضان میں اجتماعیت کی پوری شان پائی جاتی ہے۔ سبھی اہل ایمان ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیک کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرہ میں نیکی اور روحانیت کی ایک فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کا دلوں پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
روزے کے اجتماعی تقاضوں کا ذکر اس طرح بیان کیا گیا ہے۔’’کیا وہ روزہ جو میں چاہتی ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔ کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جن کا کوئی ٹھکانا نہیں ہیں اپنے گھر لائے اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جنس سے روپوشی نہ کرے؟ تب تیری روشنی صبح کے مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہوگی۔ تیری صداقت تیری ہراول ہوگی اور خداوند کا جلال تیرا پوشیدہ ہوگا۔ اور اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزردہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کے مانند ہوجائے گی۔‘‘
یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی ، خدا کے قانون کی پابندی اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔پھر تمدن کے پورے نظام، یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے، اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اس کا نام دعوتِ حق ہے جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔
قرآن اسی دعوتِ انقلاب کو پیش کرتا ہے، وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہےدلوں کی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب۔ وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت کی روش ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہوجائے۔ بُرائیاں سرنگوں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل قیادت کو مسند سے ہٹا دیا جائے اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی قیادت سنبھال لیں یہ ہے نزولِ قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔
ہم اُمت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس اُمت کا ہر فرد اس موقعے پر اور بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔ اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے۔
قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔
لہٰذا قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے، اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیروصلاح کا علَم بردار بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا۔ جس نے ریگستان کے بدوؤں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنادیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھائے، جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جس نے وہ نظام قائم کیا، جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کرڈالا۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو، بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کرسکیں، انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بناسکتا ہے۔
بہرحال اس بابرکت مہنے کا درس یہی ہے کہ آدمی اگر ماہ رمضان کی آمد سے واقعتہً فائدہ اٹھائے تو وہ اسے اس مقام پر کھڑا کردے گا کہ اسے ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ پھر تو اس کے شب و روز غفلت اور بے پروائی میں بسر نہیں ہوسکتے۔ وہ خدا کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اور بندگان خدا یعنی انسانوں کے حقوق ادا کرنے والا اور ان کا خیرخواہ اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔(ختم شد)
[email protected]