رمضان کے بعد عبادات کا رُجحان ؟ فکر وادراک

مشتاق تعظیم کشمیری

اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ وقت نمازیں فر ض کئے ہیں جیسے کہ قران مجید میں سورة(البقرہ آیت 238)میں ارشاد فرمایا ہے۔’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔‘‘ اور ہمیں رمضان المبارک کا شدت سے انتظار تھا مگر وہ اپنی تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا اور تیز ی کے ساتھ رخصت ہوگیا ۔ سوچ رہے تھے کہ اس مرتبہ جی لگاکر عبادت کریں گے ، روزہ ، نماز ، زکوٰۃ ، تراویح ،اعتکاف اور شب بیداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے،گڑگڑائیں گے،ندامت کے آنسو بہاکر اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کریں گے۔مگر رحمتوں کا مہینہ آنکھوں سے ایسا اوجھل ہوا کہ ایک بد عمل سے بد عمل انسان کو حسرت رہ گئی اور ہر ایک کی زبان پر تھا کہ کاش رمضان کا مہینہ کچھ اور طویل ہوتا ۔رمضان کے اس بابرکت مہینے کی قدر میں ہم سے کوتاہی ہوئی،اللہ معاف فرمائے اور جو بھی ٹوٹا پھوٹا عمل ہوا ، اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے۔ہر مسلم کا یہ احساس یقینا ًقابل قدر اور رمضان سے محبت کی واضح علامت ہے لیکن ذرا سوچئے کہ دل میں اتنا احساس پیدا کر لینا کافی ہے یا رمضان المبارک کے بعد بھی فرائض او راحکام ِشریعت کے ہم پابند ہیں ؟ رمضان المبارک میں اگرچہ عبادات کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ویران مسجدیں بھی بھرجاتی ہیں اور اللہ کا خوف دل ودماغ میں بسا ہوتا ہے جو دراصل سارے گناہوں کے چھوڑنے اور نیکیوں کا اصل محرک ہوتا ہے ، یہی جذبۂ عبادت اور خوفِ الٰہی رمضان کے بعد بھی ہوناچاہئے۔ رمضان میں جس طرح اللہ تعالیٰ موجود ہے، وہ سنتا اور دیکھتا ہے، عید کا چاند طلوع ہونے کے بعد بھی وہ اپنی ساری صفات کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہمیشہ رہے گا، پھر ایک مسلمان کے لئے رمضان اور دوسرے مہینوں میں اس قدر تفاوت کہ رمضان کے بعد مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں ، مساجد سے ایک دو صف کے علاوہ باقی صفوں کافرش اُٹھادیا جاتا ہے کہ اب مسلمان جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نماز کے لئے مسجدوں کا رخ نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات نماز ِفجر اور دیگر بعض اوقات میں امام کو کسی شخص کے آنے کا انتظار رہتا ہے تاکہ جماعت بنائی جائے ۔کیا مسلمانوں کے اس طرز سے احساس نہیں ہوتا کہ مسلمان رمضان کے پُجاری ہیں نہ کہ اللہ کے ۔اگر اپنے ربّ کو سجدہ کرنا اور اس سے تعلق مقصد ہوتا تو وہ رمضان سے پہلے زندہ تھے اور رمضان کے بعد بھی۔ مبارک مہینہ گزرجانے کے بعد بھی مسجدیں آباد رہنی چاہئے تاہم ایسا نہیں ہوتا ۔رمضان کے بعد پھر وہی جھوٹ، وہی رشوت ، وہی ظلم و زیادتی ،وہی بد نظری و زنا کاری ، وہی شراب نوشی اور جرائم کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور رمضان میں جمع کی ہوئی نیکیاں رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہیں۔ اسکے اسباب تلاش کئے جائیں تووجہ یہ معلوم ہوگی کہ رمضان کی حقیقت اور اسکے روح کو ہم نہیں سمجھ سکے یا سمجھنے کے بعد دانستہ طورپر ہم نے اسے اختیار نہیں کیا۔ محض ایک رسم کے طور پر روزہ کی اہم ترین عبادت ادا کرلی گئی۔ روزوں کی فضلیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اور ایک جگہ سورة(البقرہ آیت183) میں ارشاد فرمایا، ’ ’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کئے گئے تھے ، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی ۔‘‘ اس آیت کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا حقیقی مقصد بندوں میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے یعنی بندوں کا رب سے تعلق مضبوط ہوجائے ،قلب و ذہن میں اس کا خوف رچ بس جائے، روزہ داروں کی سوچ ان کے افکار وخیالات بدل جائیں ، گناہوں سے نفرت ہونے لگے اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے ۔ رمضان میں ایک بد عمل انسان بھی جب روزہ رکھتا ہے تو تنہائیوں میں بھی وہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے، حالانکہ کسی انسان کی نظر اسے نہیں دیکھ رہی ۔بند کمروں میں آسانی سے یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے مگر وہ یقین کرتا ہے کہ مجھے میرا ربّ دیکھ رہاہے ، یہ احساس اور یہ ایمان اسے روزہ توڑنے والی ہرچیز سے روکتا ہے اور اسی احساس کے سبب تمام مسجدیں نمازیوں سے بھرجاتی ہیں ،عام گھروں میں بھی نماز کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ بچے اور عورتیں، سب نماز وں کے پابند ہوجاتے ہیں اور ایک بارونق ماحول بن جاتا ہے۔قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ جس طرح رمضان میں تمہیں اللہ کا یقین ہوجاتا ہے ،ہر وقت اس کا خوف تمہارے خون کے ساتھ پورے بدن میں دوڑتا ہے، اسی طرح رمضان کے بعد بھی یہی خوف طاری رہنا چاہئے اور ایک سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنی چاہئے۔ رمضان کا ایک مہینہ در حقیقت اسی کی مشق کرائی جاتی ہے۔ تمام آداب واحکام کی رعایت کرتے ہوئے اگر کوئی شخص30 ایام روزہ رکھ لے تو یقینی طور پر اس کے بعد اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا ،وہ شخص نیک اور صالح انسان بن کر آسمانی احکام کا حقیقی متبع ہوگااور اگر روزوں کے آداب کی رعایت نہ کی جائے اور اس کے حقیقی روح کو نہ پہچانا جائے تو یہ روزہ صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا ، جیسا کہ آج کل ایک انسان دسیوں رمضان گزارلیتا ہے مگر اس کے آئینۂ زندگی میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم رکھنے کا حکم صرف رمضان کے مہینے کے لئے نہیں دیاہے ۔
[email protected]