رسول اللہ ؐسے عقیدت و محبت فکر انگیز

ڈاکٹر آسی خرم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:بلاشبہ ،نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں اور نبی پاکؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں،مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو)کرسکتے ہو،یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔(سورۃ الاحزاب،آیت :۶)اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی ازواج ِ مطہراتؓ کا مرتبہ و مقام بیان فرمایاہےاور نبی اکرمؐکی مؤمنوں سے تعلق و لگاؤ کی کیفیت کو بیان کیا ہے ’’یعنی نبی کریمؐ کو ایمان والوں سے ،ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ تعلق ولگاؤحاصل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہراتؓ تمہاری مائیں ہیں‘‘۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نظر میں اس کے والدین و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔عام طور پر محبت یا بڑوں سے ہوتی یا چھوٹوں سے اور یا برابر والوں سے ہوتی ہے۔ اس حدیث میں ان تینوں درجات کو جمع کردیا گیا ہے،کیونکہ ’’وَالِدِہ‘‘ کا اشارہ بڑوں اور بزرگوں کی طرف ہےاور ’’وَلَدِہٖ‘‘ سے اشارہ چھوٹوں کی طرف ہے اور ’’وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن‘‘ سے برابر کے لوگ دوست و احباب وغیرہ مراد لئے جا سکتے ہیں ۔سنن ابو داؤد میںحضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود یہ ارشاد مروی ہے کہ’’ میں تم سے تعلق کے اعتبار سے والد کی جگہ ہوں‘‘۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ’’اور جو شفقت و تربیت امتی کے ساتھ نبی اکرم ؐ کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ ماں باپ تو کیا، تمام مخلوقات میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔باپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی ، لیکن نبی کریم ؐ کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری خیر خواہانہ انداز میں تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کرسکتا ۔
اسی لیےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اپنی جان کو دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں ،لیکن چونکہ نبی کریم ؐاللہ کا نائب ہے، اس لئے وہ اگر حکم دے دے تو پھر فرض ہے۔ ان ہی حقائق پر نظرڈالتے ہوئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک باپ بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ صحابۂ کرام ؓ کی حیاتِ طیبہ میں ہمیں جابجا ایسی مثالیں ملتی ہیں وہ ہمہ تن نبی کریم ؐ کی جانب سے حکم اور اس کی تعمیل کے منتظر ہوتے تھے۔
غزوۂ بدر کے معرکے میں صحابہؓ نے اپنی جاںنثاری یوں بیان فرمائی، جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں نقل کیا گیا ہے’’یا رسول اللہؐ جس طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے، تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں،بخدا، ہم آپ کو وہ جواب نہیں دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جائیں اور ان سے جنگ کریں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ،بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب تشریف لے چلیں اور جنگ کریں اور ہم آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے، اس موقع پرحضرت سعد بن معاذ ؓ پنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے یوں عرض گزار ہوئے’’یا رسول اللہؐ جس طرف ارادہ ہو، لے چلیں۔
اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے،اگر آپ ہمیں سمندر میں ڈوبنے کا حکم دیں تو ہم بے خطر اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرشتوں کے ذریعے مدد کی خوشخبری سنائی گئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم فتح نصیب ہوئی۔ جس کی حکمتوں اور برکتوں سے مسلمان قیامت تک مستفیض ہوتے رہیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اسلامیانِ عالم کی ترقی کا راستہ اسی غزوے سے ہو کر جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ تھی کہ آپؐ کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچ جائے۔آپؐ نے کبھی کسی کو اگر دینی ضرورت سے غصے میں کچھ فرمادیا تو اپنی دعا سے اسےبھی رحمت بنا دیا۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے بارگاہ خداوندی میں بھی دعا کی کہ’’ جس کسی مومن کو میں نے بُرا بھلا کہا، کوڑا مارا تو میرے اس عمل کو تو اس کے لیے رحمت اور پاکیزگی اور قیامت کے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنا‘‘۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے کے لیے لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپؐدریافت فرماتے کہ اس نے ادائیگی کا انتظام چھوڑا ہے یا نہیں؟ اگر جواب میں عرض کیا جاتا کہ اس نے ادائیگی کا انتظام چھوڑا ہے تو آپؐ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے اور اگر یہ بتایا جاتا کہ اس نے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہیں چھوڑا، تو فرماتے تھے کہ تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔
یہ طریقہ آپ ؐ نے اس لیے اختیار فرمایاتاکہ لوگوں پر دوسروں کا قرض دار ہو کر مرنے کی بُرائی اور خرابی ظاہر ہوجائے، پھر جب اللہ نے آپؐ پر فتوحات کے دروازے کھول دیے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:مومنوں میں سے جس کسی کی وفات ہوجائے اور وہ اپنے اوپر قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ جائے، وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔آپؐ نے تو یہاں تک کیا کہ امت کی خیر خواہی کے لیے یقینی طور پر مقبول ہونے والی دعا کو آخرت میں اُمت کو فائدہ پہنچانے کے لیے محفوظ فرمالیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’ہر نبی کے لیے ایک دعائے مستجاب ہے۔اس لئے ہر نبیؑ نے اپنی دعا کو دنیا ہی میں استعمال کرلیا اور میںنے یہ دعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت کے دن تک چھپا کر رکھی ہے۔(مسلم)