ذکرِ اللہ سکونِ قلب کا اہم ذریعہ | اطاعتِ الٰہی قَلب سے ہوتی ہے قالِب سے نہیں فہم وفراست

ندیم خان ۔بارہمولہ
سن لو! اللہ کی یاد میں دلوں کا چین ہےـ (کنزالایمان) اس آیہ مبارکہ میں حصر کا کلمہ لا کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ دلوں کا چین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہی ہےـ۔
اگر کائنات بھر کی وسعتوں میں دولت کی دیل پیل، انواع و اقسام کے کھانے، حسین ترین وادیاں، طرح طرح کی نعمتیں، حتی کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کی بادشاہی سے بھی تمہارا جی نہ بہلے تو خوب اچھی طرح سے سمجھ لو! کہ دلوں کو سکون و اطمینان کی دولت صرف اللہ کے ذکر ہی سے مل سکتی ہےـ۔ قانون فطرت کے مطابق دماغ انسانی جسم کے تمام اعضاء کا بادشاہ ہے،ـ جسم کا ایک ایک عضو دماغ کے احکام کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے، لیکن انسانی جسم میں ایک عضو ایسا ہے، جو جسمانی بادشاہ کے بھی زیر فرمان نہیں اور وہ دل ہےـ۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان جب سوتا ہے، تو بادشاہ سلامت کا (دماغ) بھی سورہا ہوتا ہے، جسم کا ایک ایک عضو محو آرام ہوتا ہے، لیکن دل ہے کہ مسلسل دھڑکے جارہا ہے، دل کو ایک پل بھی آرام نہیں ـ دن ہو یا رات، آدمی کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، چل رہا ہو یا سو رہا ہو۔غرض یہ کہ کسی بھی حالت میں ہو، دل کا ایک ہی کام ہے حرکت، اور صرف حرکت۔ دماغ جب تمام جسمانی اعضاء کو آرام کا حکم دیکر سوجائے اور دل کو لاکھ کہتا رہے کہ اے چوبیس گھنٹے محو حرکت رہنے والے دل! تو بھی دو گھڑی آرام کرلے، مگر دل ہرگز نہیں رُکے گا،ـ معلوم ہوا کہ دل اس جسمانی بادشاہ (دماغ) کی بجائے، کسی اور ذات کے تابع اور زیر فرمان ہے اور وہ ذات احکم الحاکمین کی ذات ہے۔ـ انسان کی پیدائش سے لے کر جب تک وہ ذات چاہے گی، تب تک یہ مسلسل حرکت میں مصروف رہے گا۔ـ اس نے تب رُکنا ہے، جب تک کُلُ نفسٍ ذائِقتہُ الموت کا وعدہ پورا ہونا ہے،ـ جب پوری زندگی دل کے نصیب میں آرام ہے ہی نہیں تو اس کو چین کیسے آئے؟ کس طرح اس کو سکون و اطمینان میسر ہو؟ فرما دیا: سن لو! اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہےـ زندگی بھر میں فقط ایک لمحہ بھی آرام نہ پانے والے یہ عضو، اسکی فرحت و شادمانی کا سامان صرف اللہ تعالیٰ کی یاد ہےـ ۔امام مخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ موجودات کی تین اقسام ہیں:(1) جو خود تو اثر کرے، لیکن کسی کا اثر قبول نہ کرےـ(2) جو خود بھی اثر کرے اور کسی کا اثر بھی قبول کرےـ(3) جو خود تو اثر نہ کرے لیکن کسی کے اثر کو قبول کرےـ۔ پہلی چیز سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ کائنات بھر پر اسی کا اثر ہے، لیکن وہ خود کسی اثر کو قبول نہیں کرتاـ بےنیاز ہے، دوسری سے مراد دل ہے، جو اثر قبول بھی کرتا ہے اور موثر بھی ہے، یعنی اثر بھی کرتا ہے۔ تیسری چیز جسمانیات ہیں، جو صرف اثر قبول کرنے پر اکتفا قبول کرتے ہیں ـ(بحوالہ روح المعانی) سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جسمانیات کو جب ٹھوکر لگتی ہے، پریشانی لاحق ہوتی ہے، اضطراب پہنچتا ہے تو دل کو بھی اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پریشان ہوجاتا ہے، اب دل اگر اپنے مالک حقیقی کی طرف متوجہ ہو، اس کی یاد اسکے اندر جلوہ فگن ہو جائے اور یہ مطمئن ہوتو جسمانیات کو بھی آرام و سکون کا اثر منتقل کرنا شروع کردیتا ہے، یوں اجسام آرام پالیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن پاکباز لوگوں کے قلوب ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی عملین ہوں گےـ ،مفسرین کرام نے اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں بہت کچھ لکھا ہے، صرف دو اقوام اور انکی مختصر تشریح پر اکتفا کیا جاتا ہےـ ۔
سن لو! اللہ تعالیٰ کی یاد ہی میں دلوں کو چین ملتا ہے یعنی اللہ کی یاد سے مومنین کے دلوں سے وسوسے زائل ہوجاتے ہیں ۔ـ پتہ چلا کہ کثرت و وسواس کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے، بفضلہ تعالیٰ نجات ملے گی، ـ اس کی وضاحت کیلئے اللہ کے رسول کا فرمان ذیشان پیش خدمت ہے کہ ہر شخص کے دل میں دو گھر ہوتے ہیں، ایک میں فرشتہ اور دوسرے میں شیطان رہتا ہے،ـ جب تک بندہ اللہ کی یاد میں رہے، شیطان پسپار رہتا ہےـ جو انسان ذکر الٰہی سے غافل ہو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہےـ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
مزید ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کا زنگ دور کرنے کے لیے صیقل ہوتا ہے، یاد رکھو! دلوں کا زنگ دور کرنے کا صیقل اللہ کا ذکر ہےـ (الد عوات الکبیر للبیہقی) نیز یہ بات بھی احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتی ہے کہ ہر گناہ ہمارے دل پر ایک سیاہ نکتہ ڈال دیتا ہے، جب تک ہم توبہ نہ کریں اور گناہوں پہ گناہ کرتے چلے جائیں تو پورے دل کو سیاہ غلاف میں لپیٹ لیتا ہے۔ـ اس کا علاج حدیث بالا میں تجویز فرمایا ہے کہ جب گناہوں کی میل سے تمہارے دل زنگ آلودہ ہو جائیں، غفلت و کوتاہی کے دبیز پردے تمہارے دل کو ڈھانپ لیں، تو اسم ’’اللہ‘‘ کی ضربیں لگا لگا کر یہ زنگ اور غفلت کے پردے ہٹا ڈالو! کیونکہ دلوں کو پاک و صاف کرنے کا ذریعہ صرف ذکر الٰہی ہےـ۔تعجب ہے اُس پر جو شیطان کو جانتا ہے،اور پھر اس کی اطاعت کرتا ہے۔گویا وہ علم بالکل فضول ہے ،اگر اطاعت اور خوف کا جذبہ نہ ہواور اطاعت ِ الٰہی اپنی جان پر جبر کرنے کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی،یعنی خدا کی اطاعت قلب سے ہوتی ہے نہ کہ قالب سے۔
اللہ کا ذکر مومنین کے دلوں کی خوراک ہے،ـ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہے گا،ـ اس کا دل پرسکون رہے گاـ، جیسے کہ مچھلی پانی میں پُرسکون رہتی ہے، پرندہ ہوا میں اور جانور جنگل میں شادمان رہتا ہے،لیکن جیسے ہی انسان کے دل میں یاد الٰہی سے غفلت کا پردہ حائل ہویا آدمی اہل غفلت کی صحبت کا شکار ہو جائے، دل میں فوراً قلق و اضطراب پیدا ہونا شروع ہوجائے اور جانور کو پنجرے میں قید کر دیا جائےـ۔ جناب رسالت مآب حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور وہ جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا، دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔ـ(بخاری ومسلم)
اس موقع پر ذہن میں ایک سوال پیدا ہورہا ہے کہ قرآن مجید میں ہی فرمان باری تعالیٰ ہے: یعنی مومن وہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، انکے دل ڈر جائیں ـ تو قرآن مجید میں ایک موقع پر ذکر اللہ کو دلوں کا چین قرار دیا گیا اور دوسری جگہ پر اللہ کے ذکر ہی کو دلوں کے لئے باعثِ خوف بنا دیا گیا،ـ حالانکہ خوف اور سکون کا اجتماع ایک جگہ ناممکن سی چیز ہے۔ـ اسکا کا جواب یہ ہے کہ مومن کا دل خوف اور سکون کا جامع ہے۔ـ جب اللہ تعالیٰ کے عدل، شدت حساب اور عذاب و عتاب کا ذکر ہو تو قلب مومن خوف سے لرزہ براندام ہوجاتا ہے،ـ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور رحم و کرم کا ذکر ہو تو وہی مومن شاداں و فرحاں ہوجاتا ہےـ۔
(رابطہ۔6005293688)
[email protected]