دیور لولاب آتشزدگی واقعہ فائر سروس محکمہ کی ’پھرتی‘پھرموضوع بحث

دیور لولاب کے کاکڑپتی گاؤں میں آتشزدگی کے واقعے میں جس طرح دو چھوٹے بہن بھائیوں کی المناک موت واقع ہوگئی ،اُس نے ایک بار پھرمحکمہ فائر اینڈ ایمر جنسی سروسز کو موضوع بحث بنادیا ہے کیونکہ اس واقعہ میں آگ جیسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے ذمہ دار محکمہ کی عدم پھرتی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔اس المناک واقعہ نے آگ بجھانے کے فوری آپریشن شروع کرنے کیلئے فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈیپارٹمنٹ کی مکمل تیاریوں کو مزید اہم بنادیا ہے او ر یہ ضرورت بھی اب شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ فائر سروس محکمہ نہ صرف ہمہ وقت لوگوں کو انتہائی قریب ترین علاقہ میں میسر ہو بلکہ افرادی قوت کی بھی قلت نہ ہو تاکہ بوقت ضرورت مذکورہ محکمہ بھرپور افرادی قوت کے ساتھ مقامی آبادی کے ساتھ مل کر آگ بجھانے کی کارروائی بروقت شروع کرسکے اور ساتھ ہی ریسکیو آپریشن میں بھی تاخیر نہ ہو۔ کاکڑ پتی کے گاؤں والوں نے الزام لگایا کہ فائر فائٹرز دیر سے پہنچے اور ان کے پہنچنے تک تین گھر جل کر خاکستر ہو گئے اور دو بہن بھائی جل کر ہلاک ہو گئے۔انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ آگ لگتے ہی وہ فوری طور پر دیور کے فائر سٹیشن پہنچے اور وہاں کے اہلکاروں کو اطلاع دی۔ فائرسٹیشن کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر انہیں بتایا کہ فائر ٹینڈر میں پانی کا ٹینک خالی ہے اور ٹینک میں پانی ذخیرہ نہیں ہے۔لوگوں کے مطابق حکام نے کہا کہ وہ پہلے ٹینک میں پانی بھریں گے اور پھر موقع پر پہنچیں گے، انہیں پانی ذخیرہ کرنے اور موقع پر پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ اس دوران لال پورہ فائر سٹیشن سے فائر فائٹرز بھی پہنچ گئے لیکن تین گھر جل کر خاکستر ہوگئے اور دو بہن بھائی جان کی بازی ہار گئے۔میڈیارپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ دونوں جاں بحق ہونے والے بچوں کی ماں آگ کے شعلوں کی وجہ سے انہیں نہیں بچا سکی لیکن اس سے قبل وہ چار دیگر بچوں کو بچانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ اس کا شوہر اس وقت گاؤں میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گھر سے باہر تھا۔گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ فائر فائٹرز فوری طور پر کارروائی شروع کر دیتے تو شاید دونوں بچوں کی جان بچ جاتی۔ فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز کے اہلکاروں کو ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ اس کے لئے انہیں تربیت دی گئی ہے اور اگر وہ ایسا نہیںکرپاتے ہیں تو اس کا کوئی عذر نہیں ہے بلکہ یہ ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کیلئے جزا و سزا کا نظام موجود ہونا چاہئے۔ظاہر ہے کہ آگ جیسی ناگہانی آفت کسی سے پوچھ کر در پر دستک نہیں دیتی بلکہ ایسی آفات اچانک نازل ہوجاتی ہیں اور اچانک نازل ہونے والی آفات سے نمٹنے کیلئے کس سطح کی تیاریاں ہونی چاہئیں ،وہ سمجھ سے بالاتر نہیں ہیں تاہم افسوس کا مقام ہے کہ یہاں ناگہانی آفات س نمٹنے کے ذمہ دار محکمے ہی خود انتہائی غیر ذمہ داری کا شکار ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔وہ کسی بھی وقت ایسی آفات سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور پھر خدا خدا کرکے اپنے سٹیشنوں سے نکل ہی جاتے ہیں تو اُس وقت تک بہت دیر ہوئی ہوتی ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ فائر سروس عملہ ناقص طورلیس نہیں ہوناچاہئے جس کی وجہ سے ان کے فائر فائٹنگ آپریشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کئی مقامات پر فائر فائٹرز اپنی پوری تیاریوں اور تیز رفتار کارروائی کی وجہ سے لوگوں کی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے، عین وقت پر پہنچے اور فوری طور پر آگ پر قابو پالیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف جانی نقصان کو بچایا جاسکا بلکہ مالی نقصان کو بھی کم سے کم تر کردیا گیالیکن اس طرح کی خوش نصیبی حال خال ہی کسی ناگہانی آفت متاثرہ کو نصیب ہوتی ہے جبکہ بیشتر معامات میں اس محکمہ کا تساہل کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اعلیٰ حکام کومحکمہ سے جڑے عملہ میں پھرتی لانے کیلئے توجہ دینے اور ضروری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔حکام کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مزیدکتنے فائر سٹیشن قائم کرنے اور مزید لوگوں کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جموںوکشمیر میں ایسی جگہیں ہیں جن کے آس پاس فائر سٹیشن نہیں ہیں اور آگ لگنے کی صورت میں جان و مال کے نقصان کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔مزید فائر سٹیشن قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے اور اس محکمہ میں عملہ بھی وافر تعداد میں دستیاب ہونا چاہئے۔ لوگوں کو بھی آگ لگنے کے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لاپرواہی بعض اوقات جانوں کے ضیاع اور املاک کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔چونکہ موسم سرما دستک دے چکا ہے اور سردی سے بچنے کیلئے گرمی دینے والے آلات کا استعمال شروع ہوچکا ہے تو محکمہ کو بھی خواب غفلت میں بیدار رہنے کی بجائے خود کو تیار رہنا چاہئے کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سردیوں میں آتشزدگیوںکے واقعات بڑھ جاتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب کانگڑیوں، بخاریوں یا دیگر حرارتی آلات کااستعمال بڑھ جائے تو آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ کا احتمال رہتا ہے، اس لئے لازم ہے کہ متعلقہ محکمہ بھی تیار رہے اوربوقت ضرور ت متاثرہ مقام تک پہنچنے میں تاخیر نہ ہو تاکہ نقصانات کو کم سے کم کیاجاسکے۔