ابرہیم آتشؔ
دینی مدارس بے شک اسلامی قلعے مانے جاتے ہیں ،مدارس سے فارغ طلباء دین اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں،اپنی زندگی کا قیمتی سرما یہ انہوں نے دین کی خاطر صرف کیا ہے۔ آ ج ملک کے قریوں میں ان کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کی قربانیاںنا قابل فراموش ہیں۔لوگوں کا مدرسوں کی طرف رحجان ایک خوش آئند علامت ہے، مگر اس کے ساتھ مسلمانوں کا رُحجان کالجس اور یونیورسٹیوں کی طرف بھی ہونا چاہئے۔ اگر یہ قوم عصری تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں ہوگی تو معاشرے میں مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ بلا شبہ مدرسوں کی تعداد ملک میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ رہی ہے اور ہر گائوں میں دینی مدرسے قا ئم ہو رہے ہیںاور اللہ کے فضل و کرم سے دینی خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کو سبھی تسلیم کرتے ہیں،اس رپورٹ میں کہا گیا ہے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر ہے، اس میں مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی رپورٹ تفصیل سے پیش کی گئی ہے۔ عصری تعلیم کے بغیر صرف دینی تعلیم کے ذریعہ کیا مسلمان کامیاب ہو سکتے ہیں؟اس پر تمام مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔جہاں مدرسوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں عصری تعلیم کے لئے کالجس اور یونیورسٹیوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ تشویش ناک امر ثابت ہوسکتی ہے۔ آج کل علماء کرام بھی اپنے وعظ اوربیانوں میںعصری تعلیم کے حصول پر زور دے رہے ہیں،مگر افسوس !اس کے باوجود عصری تعلیم حاصل کرنے میں کوئی پیش و رفت نہیں ہو رہی ہے۔مسلمانوں کا عصری تعلیم کے حصول میںآج جس طرح رحجان نظر آ رہا ہے،مسلمانوں کے مستقبل کے لئے وہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں دینی مدارس کا پورا دارومدار یعنی ا خراجات مسلمانوں پر ہی ہے وہاں عام مسلمان زیادہ تر غریب ہیں،وہ کب تک ان مدرسوں کاا خرجات اُٹھاتے رہیں گے۔ ملت اگر معاشی طور پر طاقتور ہوتی تو جیسے تجارت پر ان کا غلبہ ہوتا، انڈسٹری کے میدان میں آگے ہوتے، تو پھر اس طرح سوچنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دینی مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت غریب بچوں کی ہوتی ہے، جن کی معاشی حالت بہت کمزور ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ غریب والدین اپنے اُنہی بچوں کو دینی مدرسوں میں داخل کرتے رہتے ہیں، جو عصری تعلیم حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے ہوتے ہیں،اورجو بچے عصری تعلیم میں ذہین ہوتے ہیں، ان بچوں کوانجینئر یا ڈاکٹر بنانے کی کوشش کرتے ہیں،بعد میں والدین کویہ احساس ہوتا ہے کہ ان بچوں کی زندگیوں میں زمین آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ ایک بچہ عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی نہ کسی طرح اپنے گھر کی پوری طرح سے کفالت کی ذمہ داری اُٹھا لیتا ہے اور ایک بچہ اپنے خرچ کے لئے ہی اپنے ہاتھ کشادہ نہیں کر سکتا ہے۔ دینی مدرسوں سے فارغ طلبا ء اپنے گذر بسر کا کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہیں رکھتے، وہ صرف مسجد کی امامت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار کما لیتے ہیں۔آج کی مہنگائی کے دور میںیہ رقم اس کی اپنی فیملی کے لئے نا کافی ہوتی ہے جبکہ ایک پڑھا لکھا نو جوان ماہا نہ تیس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک تنخواہ لیتا ہے۔ اس طرح مدرسے سے فارغ امام صاحب کو،اپنی تنگدستی اور مسجد کمیٹیوں کی طرف سے بار بارتکرار اور نکالے جانے سے اپنے بچوں کودینی لائن سے دور ہی رکھ رہے ہیںاور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کر رہے ہیں۔اگر یہ بات کسی کو ہضم نہیں ہو رہی ہےتو وہ جنوبی ہندوستان کے شہروں میں آکر مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔
مسلمان اگر قرآن اور حدیث پر عمل نہیںکرتے ہیں، یا صحابہ کی عملی زندگی کو اپنے لئے ہدایت کاراستہ نہ بنائیںتو یقیناًمسلمان خسارے میں رہیں گے۔ بظاہر کتنے ہی اچھے مسلمان دیکھنے میں نظر آئیں گے،اللہ تعالی کا نظام ہے ہر چیز سبب سے ملتی ہے، اسباب کا پیدا کرناحالات اور وقت پر منحصر ہے، ہر چیز کی لئے کوشش اور محنت ضروری ہے۔ دینی مدرسوں کا رحجان بغیر عصری تعلیم کے ملت اسلامیہ کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ آجکل تمام علماء بھی عصری تعلیم پر بہت زو ر دے رہے ہیں۔قرآن کریم کی کئی آیتیںہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو یوں ہی پیدا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کا مقصدہے یہاں تحقیق کرواور انسانوں کی فلاح و بہبودی کیلئے اس دنیا سے جتنی چیزیں دستیاب ہیں، حاصل کرو۔جب ہم مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے ،اُس وقت مسلمان تحقیق کے میدان میں بہت آگے تھے اور تحقیق بغیر عصری تعلیم کے ممکن نہیں ہے ،جس کی بے شمار مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔سائنس کی ترقی کی ایجاددراصل قرآن کی مرہون منت ہے۔ اسلام سے قبل کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جب کبھی سیلاب یا طوفان آجاتا تو وہ نہ صرف خوف ہی کھاتے تھے بلکہ ان کی پوجا کرنے لگ جاتے تھے ،یہاں تک کہ خوف و ڈر اور وسوسےکی وجہ سے،چوہے، بلی اور دیگر کئی جانوروں کی پوجا بھی کیا کرتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں وہ تحقیق کے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ مگر قرآن نے اس عقیدے کو مٹا دیا، اللہ ہی واحد کائنات کو چلانے والا ہے کا عقیدہ لوگوں میں پیدا کیا۔ اب اس کے بعد چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، کسی نہ کسی طرح اس بات کو قبول کر رہے ہیںکہ ایک ہی طاقت ہے جو اس کائنات کو چلا رہی ہے، عصری تعلیم کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے تمام شعبوں میں تیزی سے ترقی کے مواقع پیدا ہوئے ،جیسے پہلے جنگوں میں تلوار اور نیزوں کا استعمال ہوتا تھا، مسلمانوں نے آتش گیر مادوں کا استعمال کر کے جنگوں میں فتحوحات حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا کہ جنگ میں نئی ایجاد کس قدر کامیاب ہو سکتی ہے اور دشمن کو کس طرح زیر کر سکتی ہے۔ پہلے کے مسلمانوں نے طب کے شعبے میں ترقی کر کے انسانوں کی بھلائی کے لئے مختلف بیماریوں کے لئے ادویات تیار کرکےانہیںبیماریوں سے نجات دلاکرکافی حد تک راحت پہنچائی ہے اور تکلیف سے نجات دلاتی ہے۔طب کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جو ہر ایک کو مسخر کر لیتا ہے، جب انسان درد اور تکلیف سے کر راہ رہا ہو،تو اس وقت دوا ہی اس کے لئے مسیحا ثابت ہوتی ہے ،مریض طبیب کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اس کا احسان وہ زندگی بھر نہیں بھولتا۔جغرافیہ میں الادریسی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،آج بھی یورپ کی لائبرریوں میں ان کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ان سب باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان جس دور میں دنیا کی امامت کر رہے تھے، اُس وقت وہ صرف دینی مدارس کی حد تک محدود نہیں تھے بلکہ اس وقت عصری تعلیم اور سائنس اور دوسرے علوم میں بھی عروج پر تھے، یہی وجہ تھی کہ یورپ اور دوسرے ممالک سے لوگ علم حاصل کرنے کے لئے مسلم ممالک آتے تھے۔ اُس وقت کی مشہور یونیورسٹیاں بغداد اور قرطبہ میں تھیں۔اس وقت بھی مسلمان اگر تعلیم یافتہ ہو جائیں تو مسلمانوں کی تمام خامیاں خودبخودختم ہو جائیں گی۔ مسلمان جن شعبوں میں پچھڑے ہوئے ہیں،جیسا تعلیم کا شعبہ ،معاش کا شعبہ ،سیاسی شعبہ، ان تمام شعبوں میں تعلیم کے ذریعہ پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی، جس سے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ تعلیم کے ذریعہ ہم وطنوں کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات پیدا ہوں گے۔ اسکولوں میں کالجوں میں تمام قوموں کے طلباء کے ساتھ مسلمان طلباء ہوں گے، ایک اچھا موقع ہوگا کہ اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے رکھنے کے لئے یا کم از کم مسلمانوں کے کردار اور اخلاق کو دیکھ کر دوسری قوم کے طلباء اسلام کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کے واقعات ماضی میں پیش آ چکے ہیں اور آج بھی یورپ اور امریکہ میں پیش آ رہے ہیں ۔ غرض کہ اس طرح سے اسلام کی دعوت ہر انسان تک پہنچے، جب یہ موقع ہمیں بغیر کسی سفر کے حاصل ہو رہا ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے ،وہ سفر کی صعبتوں سے ہمیں راحت ملی۔ مسلمانوں کو ان باتوں پر توجہ دینی ہوگی ۔مسلمان ، اسلام کی خوبیاںصرف مسلمانوں میں بیان کرتے رہیں گے تو وہ اصل ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔ جب مسلمان تعلیم یافتہ ہوں گے، ملک کی صورتحال پر نظر ہوگی دنیا کے معاملات سے باخبر ہونگے،تبھی اُن سے ایک اچھی قیادت کی امید کی جاسکتی ہے۔ اگر غیر تعلیم یافتہ ہوں گے تو دنیا کے حالات اور اور حالات حاضرہ سے ناواقف ہوں گے اور انہیں کوئی بھی ٹھگ سکتا ہے۔ اعلیٰ عصری تعلیم کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مسلمان معاشی طور پر طاقتور بن سکیں گے۔ دینی مدارس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، مسجدوں کے اماموں کی تنخواہیں بڑھیں گی ۔ یاد رہے کہ ماضی میں مسلمانوں کا جدید ہھتیاروں کے ذریعہ دشمنوں پر غالب آنا یا مسلمانوں کا طب کے شعبہ میںانسانوں کے دلوں کو فتح کرنایا جغرافیہ میںرسائی حاصل کرکے دنیا کی صحیح تصویر پیش کر کے اس وقت دوسری قوموں پر برتری قائم نہیں کی بلکہ اُس وقت مسلمانوں کی معاشی حالت بھی بہت طاقتور تھی، جس طرح آج کے زمانے میں ہم دوسری قوموں کو اُسی طرح ان شعبوں میںبے تحاشہ آمدنی کا ذریعہ بنے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔جب کسی قوم میں ایک بڑا طبقہ معاشی اعتبار سے اُبھر آئے گا ،اس طبقہ سے اس قوم کے دوسرے لوگوں کو فائدہ ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر تمام قوم چھوٹے موٹے کاروبارکرتے رہیںتو آمدنی کے ذرا ئع بالکل محدرد ہوں گے، ملت میں تنگ دستی اور مفلسی ہر جگہ عام ہو جائے گی اوروہ اونچے عہدوں پر کبھی نہیں پہنچ پائیں گے ۔مسلمانوں کے لئے جتنی دینی تعلیم لازمی ہے ،اُتنی ہی عصری تعلیم بھی ضروری ہے، دونوں کے بغیر مسلمانوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے ۔
رابطہ۔ 9916729890
[email protected]>
دینی و عصری تعلیم میں ہی کامیابی مضمر ہے