دُوردراز علاقوں میں تعلیم ِ نسواںکی صورتحال حقائق

سلمیٰ راضی ۔منڈی،پونچھ

دور جدید میں لڑکیوں کے حقوق کی غرض سے متعدد پراگرام، سیمینار،بیداری مہم، ریلیاں غرض طرح طرح سے لڑکیوںکے حقوق پر فلک شگاف نعرے بلند تو ہوتے رہے ہیں لیکن اسی ملک کے یوٹی جموں کشمیرمیں تعلیم نسواں کی حالت ِزارکا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان کو یہ نعرے کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ مرکزی زیرانتظام جموں وکشمیر کے باقی اضلاع کے بلمقابلہ سب سے آخری اور سرحدی ضلع پونچھ کے گنے چنے تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر اکثر سرکاری اسکولوں میںلڑکیوں کی تعلیم کا نظام بس ایک دِکھاوا رہ گیا ہے ۔ لڑکیوں کے لئے مخصوص ا سکیمیں وظائف یا مفت تعلیم کے بلند وبانگ دعو ے خیالوں یا فائیلوں تک محدود ہیں۔ستم در ستم یہ کہ اب اکثر تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھی میسر نہیں ہیں،مختلف مضامین کو پڑھانے کے لئے نہ ہی اساتذہ اور نہ ہی درکار کچھ سہولیات میسر ہیں۔
ضلع پونچھ سے 29کلومیٹر دوری پر واقہ گاوں اڑائیؔ آباد ہے۔ پندرہ ہزار سے زاید آبادی پر مشتمل یہ گائوںتین پنچائیتوں میں منقسم ہے۔ جہاں پر ایک ہائیر سیکنڈری ،ایک ہائی اسکول، چار مڈل اسکول اور 12پرائیمری اسکول سسکیاں لے رہے ہیں۔ ان تمام اسکولوں میں کہیں عملہ کی قلت ،کہیںعمارت خستہ تو کہیں ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔یہاں پر موجود ہائیر سیکنڈری جس کو بنے چار سال ہوچکے ہیں، اس ہائیر سیکنڈری میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے زیر تعلیم دسویں جماعت کی طالبہ مسرت ناز نے کہاکہ ہمیںا سکول آنے تک زبردست مشکلات درپیش ہیں۔ دوردارز جنگلاتی علاقوںسے جنگلی جانوروں کے خوف و ڈرکا سفر برداشت کرتے ہوئے جب اسکول میں آتے ہیں تو یہاں ہمیں مضمون پڑھانے کے لئے استاد ہی نہیں ہوتا۔ اگر چہ کبھی کبھی کچھ مضامین کے لئے پرنسپل صاحب بندوبست کرتے ہیںلیکن لگاتار کلاسیں نہیں لگتی ہیں۔سائینس اور میتھ پڑھانےکے لئےآج تک کوئی استاد نہیں ہے۔ تو ہم پڑھیں کیسے اور آگےبڑھیں کیسے؟ایک اورطالبہ راشدہ کوثر جو گیارویں جماعت میں پڑھتی ہیں،وہ کہتی ہیںکہ ہندوستان بھر میں بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کے نعرے لگا ے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے پروگرام ،ریلیاں اور سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں۔اگر یہ نعرے سچ ہوتے تو ضلع پونچھ کےاس دوردراز علاقہ اڑائی کے اسکول میں زیر تعلیم بیٹیوں کے لئے اساتذہ مہیا کیوں نہیں؟ کیا یہ غریب ماں باپ اور دیہی علاقوں کی بیٹیاں ہیں، اس لئے ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ پڑھانے والے اساتذہ کی عدم دستیابی میںہم کیا پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟راشدہ کے مطابق یہاں تین استاد تھے، وہ بھی اب تبدیل ہوکر جارہے ہیں۔ان کی جگہ کوئی نہیں آیا ہے۔بارہویں جماعت میں آرٹس کی طالبہ نازیا کوثر کا کہناتھاکہ یہاں لیکچرر کی گیارہ پوسٹیں تھیں، جن میں سے تین ہی اُستادتھے۔ان میں سے ایک انگریزی کا لیکچرر۔ وہ بھی تبدیل ہوگیاہے، ان کی جگہ کسی کویہاں نہیں یہاں بھیجا گیاہے۔ پہلے تو ہمیں گھر سے اسکول تک دسیوں مصائیب سے اُلجھنا پڑتاہے۔پھر یہاں بغیر تعلیم کے ناکامیوں پر روناپڑتاہے۔ یوں ہمیں اسکولوں میں لاکر سرعام پریشان کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ جب استاد نہیں تو یہ ادارے کس کام کے ہیں؟ ایک اور طالبہ نعیمہ اکرم جو بارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہے، اس کا کہنا تھاکہ یہاں پہلے تو بچیوں کا اسکول تک آناہی ایک کرشمہ ہے، کیوں کہ یہاں اکثر لوگ اسکول میں اپنی بیٹیوں کو بھیجنا ہی پسند نہیں کرتے ہیں۔ اب اگر یہ لڑکیاں زبردست مشکلات جھیل کرا سکول کے دروازے تک پہونچ ہی جاتیںتو یہاں دنیا خود ہی ویران ہے۔ نہ استاد ، نہ بیٹھنے کے لئے ڈیسک، نہ کمرے، نہ کھیل کا میدان۔جس تعلیمی ادارے کا حال ایسا ہو وہاں کیسے پڑھ پائیں گے ؟
ہائیر سیکنڈری اسکول، اڑائی کے پرنسپل محمد امین جوکہ ایک ہمدرد استاد ہیں۔ان سے جب ا سکول کے عملہ کے حوالے سے پوچھاگیاتو ان کا کہناتھاکہ میرے اسکول میں کل 49 اسامیاں ہیںاور اس وقت ٹیچر، ماسٹر اور لیکچرر وغیرہ ملاکر 17اسامیاں ہی پُر ہیں۔ان میں سے بھی تین اساتذہ کے تبادلوں کے احکامات صادر ہوچکے ہیںجو یہاں سے جا رہے ہیںاور ایک اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوچکاہے۔ اس طرح اب تیرہ افراد پر مشتمل عملہ یہاں رہ گیاہے۔جبکہ اس اسکول میں کل 431طلباء وطالبات اندارج ہیں۔اگر چہ کسی طرح میں بندوبست کرتا ہوں۔خصوصی طور پر ہائیر سیکنڈری جماعتوں کے لئے پوری طرح مضمون پڑھانے والے استاد نہیں ہیں۔ اگر چہ اس اسکول کو ہارڈ زون میں رکھا گیا ہے،جس کی وجہ سے یہاں شاید اَساتذہ آنے سے کتراتے ہیں،جبکہ اب یہاں آنے جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ا سکول میں عملہ کی درپیش مصیبت پر علاقہ کے سرپنچ محمد اسلم ملک کا کہناتھا کہ ہائیر سیکنڈری اڑائی میں عملہ کی قلت سے والدین کیلئے ایک اور مشکل کھڑی کر دی ہے۔ جہاں گائوں کے سب سے بڑے سرکاری ادارہ میں تعلیم کا یہ عالم ہوتو دیگر اداروں کا کیا حال ہوگا؟ہائیر سیکنڈری اڑائی میں عملہ کی قلت کے حوالے سے جب چیف ایجوکیشن آفیسر ،پونچھ عبدلمجید سے پوچھاگیاتو ان کا کہناتھاکہ تمام تر ہائیر سیکنڈریوں میں عملہ کی قلت ہے ۔ ہائیر سیکنڈری اسکول اڑائی میں فزیکس کا لیکچرر کا آرڈر ہوچکاہے۔ایک مہینہ کے اندر اندر باقی سبجیکٹوں کے اساتذہ بھی تعینات کئے جا رہے ہیں اور پرنسپل ہائیر سیکنڈری اسکول اڑائی کو بھی کھلی اجازت ہے کہ وہ جہاں اسکولوں میں اساتذہ زیادہ ہوں،انہیں اپنے اسکول میں لانے کی کوشش کریں۔ ان کا کہناتھاکہ والدین گھبرائیں نہیں بلکہ مستقل حاضری کے ساتھ بچیوں کو اسکول بھیجیں۔اساتذہ کا جلد ہی بندوبست کیاجائےگا۔
سوال یہ ہے کہ آخران اسکولوں میں اساتذہ کی قلت کا ذمہ دار کون ہے؟محکمہ تعلیم، لیفٹنٹ گورنر، انتظامیہ، والدین، ہمارے نمایندگان یا پھر دیہی علاقوں کی وہ لڑکیاںجو علم حاصل کرنے کی خاطر بہت ساری تکلیفیںبرداشت کر رہی ہیں؟کیا کسی کے پاس اس بات کا جواب ہے؟جب سرکاری اداروں میں اساتذہ ہی نہیں تو پھر دیہی علاقوں کی لڑکیاںکیسے پڑھ پائیں گی گئیں؟
[email protected]>