دُعا۔ عبادت کی رُوح اللہ کے قُرب کا سرچشمہ

محمد حنیف خان

ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ! بھلا کون بے اقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے سوا اور کوئی معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو۔(سورۃ النمل) معلوم ہوا کہ اللہ ہی کے سامنے عرض معروض کرنا چاہیے اور کسی دوسرے سے کسی قسم کی امیدیں نہیں باندھنا چاہئیں اور ہمیشگی اختیار رکھنی چاہیے، جیسا کہ حکم ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ! اور اپنے پروردگار کو دل ہی میں دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا۔(سورۃ الاعراف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دُعا در اصل عبادت ہے۔(ترمذی ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا۔ (جامع ترمذی : ۳۳۷۱)
مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ کو دُعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں۔ (ترمذی، باب ما جاء فی فضل الدعاء)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا ، اس کے لئے رحمت کے دروازے وا ہوگئے اور انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے، اس میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں ۔ ( مشکوٰۃ )
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دُعا قبول کی جائے اسے چاہئے کہ بہتر وقت میں خوب دُعا کیا کرے ، ( ترمذی )
دُعا چوں کہ خود عبادت ہے، اس لئے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یا تو اس کی دُعا اسی طرح قبول کر لی جاتی ہے ، یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے، یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے۔ ( مشکوٰۃ )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح دُعا کرو کہ دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے ضرور ہی قبول فرمائے گا ۔( مجمع الزوائد )حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ، آپ ﷺے ارشاد فرمایا : اللہ غافل اور بے توجہ دل کی دُعا قبول نہیں فرماتا۔ (مشکوٰۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا کے کلمات کے بارے میں بھی آداب بتائے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر نی چاہئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود ، پھر دُعا کرنی چاہئے۔ ( مجمع الزوائد)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے تم نے جلد بازی کی ، جب نماز پڑھو تو بیٹھو ، پھر اللہ کی حمد کرو، پھر مجھ پر درود بھیجو ، اس کے بعد دُعا کرو ۔ چنانچہ اس نے اسی طرح دُعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دُعا کرو قبول کی جائے گی۔ ( مجمع الزوائد)
کچھ خاص اوقات ہیں ، جن میں دُعا مقبول ہوتی ہے ، رات کے آخری اور تہائی حصہ میں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجائے ۔( مسند احمد)
جہاد میں صفوں کے آراستہ ہونے کے وقت ، بارش ہونے کے وقت ، نماز کی اقامت کے وقت ( ترمذی)
اس کے علاوہ فرض نمازوں کے بعد ، شب قدر اور بعض خاص راتیں دُعا کی قبولیت کے خاص مواقع ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ہیں ، جن کی دُعاؤں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر مقبول قرار دیا ہے ، ان ہی میں مظلوم ہے ، گو وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے بُراہی کیوں نہ ہو ، روزے دار ، تاآںکہ افطار کرلے اور مسافر، تاآںکہ واپس آجائے۔ ( مجمع الزوائد)
امام عادل کی دُعا اور باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہے۔ حاجی کی دُعا گھر واپسی تک اور مجاہد کی دُعا جہاد سے فارغ ہونے تک بھی مستجاب دُعاؤں میں ہے ۔ (مشکوٰۃ )