دوردراز علاقوں کی طالبات اور نیٹ ورک

پہاڑی ریاست اتراکھنڈ بھی ملک کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جن میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ جہاں 14 فروری کو ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ایسے میں تمام پارٹیاں نےووٹروں کواپنے حق میں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ترقی ایک بڑا مدعا رہا، کیونکہ اپنے قیام کے 21 سال بعد بھی اتراکھنڈ دیگر ریاستوں کے مقابلے ترقی کے کئی معاملوں میں پیچھے ہے۔ خاص طور پر اس کے دور دراز دیہی علاقے ابھی تک ترقی کی روشنی سے محروم ہیں۔
میں ذکر کر رہی ہوں رولیانہ گاؤں کی، جو اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک سے 20 کلومیٹر دور ہے۔ جہاں ابھی تک نیٹ ورک کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔اگرچہ گاؤں کے بیشتر افراد کے پاس نئی ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون دستیاب ہیں لیکن نیٹ ورک کی عدم دستیابی سے یہ صرف ایک آرائشی شے رہ گیا ہے۔ جہاں گاؤں کے لوگ نیٹ ورک کی کمی سے پریشان ہیں وہیں طلبہ کو بھی پچھلے دو سالوں سے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا رہاہے۔ کورونا کے دور میں جب اسکول، کالج اور ہر قسم کے تعلیمی ادارے بند تھے اور تعلیم کا واحد ذریعہ آن لائن کلاسز تھیں۔ ایسے وقت میں گاؤں میں نیٹ ورک کی کمی نے سب سے زیادہ نقصان طلبہ کو پہنچایا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف دیہات کی سطح پر تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے بلکہ پرائمری اور مڈل سکولوں میں پڑھنے والے طلباء تعلیم سے تقریباً دور ہو چکے ہیں۔ ہائی اسکول کے طلباء نے نیٹ ورک ایریا میں پہنچ کر کسی طرح اپنی کلاسوں میں شرکت کی کوشش کی، لیکن چھوٹے بچوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ آن لائن کلاسز اور نیٹ ورک کی کمی نے طالبات کی تعلیم کو بھی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ جہاں آن لائن کلاسز کے لیے لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کو ترجیح دی گئی۔
زیادہ تر گھروں میں کمزور مالی حالت کی وجہ سے صرف ایک فون کی سہولت ہے، جو سب سے پہلے لڑکوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکی سینئر کلاس میں ہونے کے باوجود کئی گھروں میں جونیئر کلاس میں پڑھنے والے لڑکے کو موبائل فراہم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے لڑکیوں سے گھر کا کام لیا جاتا ہے۔ کام ختم ہونے کے بعد انہیں وقت ملتا ہے تو اسی وقت فون دیا جاتا ہے ،جب بھائی کی کلاس مکمل ہو چکی ہو گی۔ گھر میں لڑکوں کی کلاس میں نیٹ ورک کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، لیکن لڑکی کو درپیش اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔یہ مسئلہ آج بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی ایک لڑکی ممتا کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز کے لیے فون دستیاب ہونے پر بھی نیٹ ورک کا مسئلہ آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی گھر سے ایک کلومیٹر دور پہاڑ پر کسی خاص جگہ جانا پڑتا ہے جہاں کچھ وقت کے لیے نیٹ ورک دستیاب ہوتا ہے۔ بہت سی نوعمر لڑکیوں کے والدین انہیں اتنی دور تک آنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں۔ ایک اور طالبہ نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب ہم اپنی کلاسز مکمل کر پائے ہوں۔ نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے نہ تو ہم استاد سے سوالات کر پاتے ہیں اور نہ ہی گوگل پر سرچ کر پاتے ہیں۔سائنس اورحالات حاضرہ میں دلچسپی کے باوجود ہم ملک و دنیا کی خبریں جاننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
بورڈ کے امتحان کی تیاری کرنے والی طالبہ سروجنی کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور آن لائن کلاسز کی جا رہی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی طالب علم کے لیے بورڈ کا پرچہ کتنا اہم ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمارے اساتذہ بھی آن لائن دستیاب ہیں لیکن نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے میں ان سے رابطہ کرنے اور کسی بھی سوال کا حل جاننے سے محروم ہوں۔ جس کی وجہ سے میری پڑھائی بہت خراب ہو رہی ہے۔ اگر محکمہ ٹیلی کمیونیکیشن اور نیٹ ورک کمپنیوں نے ان دور دراز دیہی علاقوں میں بھی نیٹ ورک کی بہتری پر توجہ دی ہوتی تو مجھ جیسے بہت سے طلبہ کو نقصان نہ پہنچا ہوتا۔طلباء کو ہونے والے اس نقصان سے اساتذہ بھی پریشان ہیں۔ استاد نیرج پنت کے مطابق بورڈ کا امتحان کسی بھی طالب علم کی زندگی میں ایک اہم موڑ ہوتا ہے۔ جسے ا سکول انتظامیہ بخوبی سمجھتی ہے۔ اسی لیے لاک ڈاؤن میں بھی آن لائن کلاسز کے ذریعے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ لیکن رولیانہ گاؤں میں نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے وہاں کے طلباء کو آن لائن کلاسز کے ذریعے رہنمائی کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جو کہ اسکول اور محکمہ تعلیم کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
نیٹ ورک کی پریشانی کی وجہ سے طلباء کے ساتھ ساتھ گاؤں کے عام لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنی پڑتی ہے۔اس سلسلہ میں ایک خاتون منجو دیوی کے مطابق گھر والوں سے رابطے کا واحد ذریعہ فون ہے جو روزگار کی تلاش میں شہر گئے ہیں لیکن نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنا جنگ جیتنے کے مترادف ہے۔ آج کل ہر چیز ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے کام آسانی سے اور وقت پر ہو جاتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب نیٹ ورک کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ جبکہ یہ اس گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کے اس دور میں جب انتخابی مہم بھی ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے، سیاسی پارٹیاں اس مسئلہ کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ کیونکہ نیٹ ورک کے بغیر کسی بھی گاؤں کی ترقی ادھوری ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیٹ ورک جیسے انفراسٹرکچر کی کمی اتراکھنڈ کے الیکشن میںاہم رول ادا کرے گی؟ 
( باگیشور،اتراکھنڈ)