دشمنی میں کیا رکھا ہے،چلیں دوستی کریں!

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بار پھر مرکزی حکومت کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ بھارت پڑوسیوں کے ساتھ ہمسائیگی کے تعلقات چاہتا ہے لیکن ہم کبھی بھی دہشت گردی کو ہمیں مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے مجبورکرنے کی خاطر ایک ہتھیارکے طور استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے ۔بھارت کی یہ مستقل پالیسی اب کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے کہ بھارت پڑوسیوں کے ساتھ ہمسائیگی کے تعلقات استوار کرنے میں پہل کرتا آرہا ہے کیونکہ بقول واجپائی دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں تاہم اس عمل میں ملکی مفادات کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے ۔یہی کچھ ہماری ملکی قیادت بار بار کہتی آرہی ہے ۔جے شنکر کا تازہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ظاہر ہے کہ دہشت گردی اور طاقت آزمائی کی پالیسی قبول تھی،ہے نہ آگے کبھی ہوگی لیکن بقائے باہمی کے جذبہ کے تحت ہی آگے بڑھنے کی راہ نکل سکتی ہے ۔کل بھی فوجی سربراہ نے ایک تقریب میں کہاکہ ملک کو پاکستان اور چین سے خطرہ لاحق ہے تاہم فوج کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ایسے ہی کچھ ریمارکس وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دئے تھے جہاں انہوںنے کہا تھاکہ چین کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں اور بھارت چین کے ساتھ لگنے والی حقیقی کنٹرول لائن پر کسی بھی یکطرفہ تبدیلی کو قبول نہیں کرے گا۔آج کی دنیا میں بالادستی اور توسیع پسندی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے اورنہ ہی اس طرح کی سوچ کو اب استحسان کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ایسی سوچ رکھنے والی قوتوں کو جارح کہاجارہا ہے ۔مشرق سے لیکر مغرب اور جنوب سے لیکر شمال تک دنیا میں جہاں بھی بالادستی اور توسیع پسندی کی سوچ کو حاوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،اُس کو عالمی برادری کی جانب سے مسترد ہی نہیں کیاجاتا ہے بلکہ اسکے خلاف پیش بندی بھی جاتی ہے تاہم افسوس کا مقام ہے کہ بھارت کے پڑوس میں اسی طرح کی سوچ کو مسلسل عالمی سطح پر نظر انداز کیاجارہا ہے حالانکہ ایسے عزائم سے اب کوئی غافل نہیں ہے ۔دنیا تشدد سے بہت آگے نکل چکی ہے اور اب طاقت اور تشدد کے بل پرکوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔یوکرین جنگ ہمارے سامنے ایک بڑی مثال ہے ۔اس جنگ میں جدید ترین سامان حرب و ضرب کا استعمال کرکے ایک دوسرے کو گھٹنوں پر لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اتنے ماہ گزر جانے کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے اور ماسکو کی شدید خواہشا ت کے باوجود یوکرین نے تاحال ہتھیار نہیں ڈالے ہیں ۔یہ جنگ ایسی قوتوں کیلئے عبرت کا نشان ہونا چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ توسیع پسندی اور بالادستی سے وہ کسی کو زیرکرسکتے ہیں۔دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہیں۔اب ممالک کے مفادات اتنے گڑ مڑ ہوچکے ہیں کہ تنہائی میں رہنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے ۔بقائے باہمی کا تصور ہی موجودہ دنیا کو تمام مسائل سے نکال سکتا ہے اور ہمارے اس خطے میں بھی یہی جذبہ درکار ہے جو اس خطہ کو تما م مسائل سے نکال کرترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کراسکتا ہے ۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک اور بھارت کی کوکھ سے جنم لینے والا پڑوسی ملک پاکستان طویل عرصہ تک ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمت اور جنگ و جدل کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جہاں اس کشیدگی کی وجہ سے ہمارے ملک کی دفاعی بجٹ غیر ضروری طور پر بڑھ رہی ہے وہیں بیجنگ اور اسلام آباد کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔اگر تناعات نہ ہوں تو یہی پیسہ عوام کی فلاح و بہود پر خرچ کیاجاسکتا ہے ۔ہماری عوام قطعی اس کی حقدار نہیں کہ ہم ان کو اپنی رقابتوں کا یر غمال بنا کررکھیں۔عوام کیوں اُس جنگ کا خمیازہ بھگتیں جس کے وہ شراکتدار ہی نہیں ہیں۔ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی حس شخص کشت و خون نہیں چاہے گا او ر ہر کوئی چاہے گا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے جذبہ کے تحت رہ کر ترقی وخوشحالی کے نئے منازل طے کرے لیکن پھر جب توسیع پسندی اور جارحیت و بالادستی کی سوچ در آتی ہے تو امن ،ترقی اور خوشحالی کے اہداف پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔یہ قطعی کوئی خوش کن صورحال قرار نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ایسی صورتحال مشترکہ طور سب کی پیش قدمی روک دیتی ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ بقائے باہمی کے آفاقی اصول کا احترام کیاجائے اور جیو اور جینے دو کے اصول پر کارفرما ہوکر سب کو ساتھ لیکر چلا جائے۔پڑوسیوں سے ہمسائیگی کے تعلقات استوار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کیلئے ہمہ وقت پیش پیش رہنے میں کوئی مزائقہ نہیں لیکن ہمسائیگی کے تعلقات کسی بھی صورت میں یکطرفہ طور استوار نہیںہوسکتے بلکہ اس کیلئے سب کو پہل کرنا ہوگا ۔اس لئے بہتری اسی میں ہے مل جل کر رہا جائے اور ہمسائیگی کے تعلقات استوار کرنے کیلئے بقائے باہمی کے جذبہ کو پروان چڑھایاجائے تاکہ تمام کدورتیں دور ہوں اور دوستی کی ایسی فضاء قائم ہو جس میں دشمنی کی کوئی گنجائش نہ ہو اور سارے لوگ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر ترقی وخوشحالی کے سفر کے مسافر بن سکیں۔