خواتین کو خود کفیل بنانے کی پہل عزم و حوصلہ

ریحانہ کوثر ریشی

ہنر مندی کے فروغ اور صنعت کی وزرات نے جنوری 2021 میں اپنی فلیگ شپ اسکیم پر دھان منتری کوشل وکاس یوجنا کا تیسرا مرحلہ شروع کیا تھا۔ جس کا مقصدایک طرف جہاں صنعت کی ضروریات اور بازار کی مانگوں کو پورا کرنا ہے وہیں دوسری جانب ہنر مندوں کو مناسب پلیٹ فارم مہیا کرانا ہے۔ دراصل کووڈ کے بعد کے دور میں نوکریوں سے متعلق بہت پریشانیاں آئی ہیں۔ہنر مند ہونے کے باوجودکئی لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ایسے میں پر دھان منتری کوشل وکاس یوجنا کے ذریعہ ان کے ہنر کو فروغ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی میں کارآمد ثابت ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لئے ایک ایسا ماحولیاتی نظام تیار کرنا،جہاں پر وہ ہنر مندی کے دستیاب شعبوں میں سے اپنی پسند کی چیزیں شعوری طور پر منتخب کر سکیں۔ہنر مندی کی تربیت اور سند حاصل کرنے کے لئے نوجوانوں کو امداد فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔
وزرات دیہی ترقی سلف ایمپلائمنٹ ٹریننگ آر ایس آئی ٹی آئی کے تحت ہنر مند ترقیاتی پروگرام کو نافذ کر رہی ہے جو ایک ٹرینی کو بینک کا کریڈٹ لینے اور اپنا مائکرو انٹرپرائز شروع کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دوسری اسکیم این آر ایل ایم (امید) جو پورے ہندوستان میں چل رہی ہے، یہ اسکیم مرکزی حکومت کی جانب سے ملک کے گاؤں گاؤں میں چلائی جا رہی ہے۔ وہی جمّوں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی میں بھی اس اسکیم کوکامیابی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔ خواتین کو اس اسکیم کے ساتھ زیادہ جوڑا جا رہا ہے۔ منڈی تحصیل کے گاؤں عظمیٰ بعد گنائی محلہ میں باضابطہ طور پرامیدکا سینٹر 2016 میں کھولا گیا ہے۔اس کے ذریعہ کئی نوجوان لڑکیوں کو ہنر مند بنایا گیا ہے۔اسی سینٹر میں کام کرنے والی ثمینہ کہتی ہیں کہ نازیہ غنائی ہم سب خواتین کے لئے ایک مثال ہیں۔ بغیر کسی لالچ کے وہ اس مشن کو اچھے سے چلا رہی ہیں۔ بہت سی خواتین ان کی وجہ سے آج ہنرمند بن چکی ہیں اور اپنے گھر کی آمدنی کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
نازیہ نے اس مشن کو چلانے کے لئے سب سے پہلے’’اُمید‘‘ اسکیم کے تحت بینک سے پندرہ ہزار روپے لون لیا۔جس سے انہوں نے تین سلائی مشین اور کچھ سویٹزر بُننے کے لئے اون (دھاگہ) خریدا۔فی الحال دس لڑکیاں ان کے سینٹر میں کام سیکھ رہی ہیں۔اتنا ہی نہیں وہ ہر لڑکی کو سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر مہینے پندرہ سو روپہ بھی دیتی ہیں۔ لون کا جو سامان انہوں نے پہلے لیا ،اس سے سویٹزر اور کپڑے بنا کر انہوں نے جمّوں، پونچھ اور منڈی میں سٹال لگا کر بیچا، جس سے انہیں اچھی آمدنی ہوئی۔نازیہ نے ایک بار پھراس سال جنوری میں پچاس ہزار کا لون لیا۔ اس لون کے پیسوں سے انہوں نے بہت سے سیمپل ہینڈ بیگ خریدا، جن پر لڑکیاں ہینڈ ورق والا کام کر رہی ہیں۔ اس سینٹر کے ہیڈ افسر گل شرما اور آفتاب نے اس اسکیم کی جانکاری منڈی کے گاؤں گاؤں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج اس سنٹر سے دور درازپہاڑی علاقہ جات کی بہت سی خواتین ان کے ساتھ جڑ ی ہیں۔اس سلسلہ میں اکیس سالہ شبنم گنائی کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے سینٹر سے دستکاری کا کام سیکھ رہی ہیں۔ان کے مطابق ’’مجھے سلائی کے بارے میں کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ تین ماہ کے عرصہ میں اب میں بہتر طور پر کپڑوں کی سلائی اور کٹائی کر سکتی ہوں‘‘۔ شبنم کہتی ہیں کہ ان کے گھر والوں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جس سے وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکتیں۔ ان کے بقول یہاں سے مفت دستکاری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد میں گھر پر یہ کام جاری رکھوں گی اور گھر کے اخراجات میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاو گی۔ شبنم کا کہنا تھا کہ نازیہ مختلف دستکاری اداروں کے تربیتی کاموں میں بھی حصہ لیتی رہی اور وہاں سے حاصل کردہ معلومات اور جدید ہنر اپنے شاگردوں میں مسلسل منتقل کرتی رہی۔نازیہ کے مطابق تاحال انہوں نے کم و پیش سو پچا س لڑکیوں کو عملی دستکاری کی تعلیم دی ہے۔وہ اپنے دستکاری سینٹر میں کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ کڑھائی ،اون سے سویٹر بنانا ‘ ،سوتی چادر کی گلوکاری اور کشیدہ کاری کے ہنر بھی سکھا تی ہیں۔تمام گاؤں کے لوگوں کو چاہئے کہ اس اسکیم کا بھر پور فائدہ اٹھائیں اور اپنے گھر کی لڑکیوں کو اس سے جوڑیں تا کہ پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں اس اسکیم کے تحت ہنر مند بن سکیں اور پوری طرح سے فائدہ اٹھا سکیں۔
دراصل حکومت کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو خودکفیل بنانے کے لئے مختلف اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں۔ان میں جہاں ایک طرف امید اسکیم شامل ہے وہیں مدرااسکیم بھی اہم ہے تاکہ ملک کے دوردراز علاقوں کی خواتین اور لڑکیاں خودانحصار بن کرمعاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی اسکیموں کی زیادہ سےزیادہ تشہیر کی جائے۔ اس کے علاوہ اس طرح کی اسکیموں سے استفادہ کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کی صلاحیتوں کو ایک بہتر پلیٹ فارم مہیا کرایا جا سکے۔(چرخہ فیچر)