خطہ پیرپنجال ریاست کاوہ حصہ ہے جس کا زیادہ تر حصہ اونچے پہاڑوں ، جنگلوں ، اور برفیلی و ا دیوں پر مشتمل ہے ۔پیرپنجال میں دو تاریخی اضلاع راجوری اور پونچھ آتے ہیں ۔خطے کی زیادہ تر سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں ، یہاں کی زیادہ تر آبادی کھیتی باڑ ی کر کے اپنی روزمرہ زندگی بسر کرتی ہے ۔ان ا ضلاع میںبالخصوص مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ملک کے بٹوارے سے پہلے راجوری اور پونچھ ایک بہت بڑے رقبے پر مشتمل تھے ، لیکن بٹوارے کے بعد دونوں اضلاع کا آدھا سے زیادہ حصہ پاکستان کے حدود میںچلا گیا ۔ پونچھ کی منڈی ، حویلی اور مہنڈر تحصیل کے بہت سارے گاؤں کی سرحدیں پاکستان کے ضلع کوٹلی اور فتح پور سے ملتی ہیں ۔ ۲۰۰۳ ء میں آرپار کی سیاسی قیادت نے خیر سگالی اور نیک ہمسائیگی کے طورجنگ بندی معاہدہ کر کے یہ عوام کو وعدہ دیا تھا بلکہ مژدۂ جانفزا سنایا تھا کہ دونوں ملک کسی بھی مسئلے یا تنازعے کا حل باہمی افہام وتفہیم سے نکالیں گے ، خاص کر سرحدوں پر ہمیشہ امن وامان قائم رکھا جائے گا ۔طرفین نے معاہدہ ٔجنگ بندی کی رُوسے پختہ عہد کہ لائین آف کنٹرول پر امن قائم کرنے کے ہم وعدہ بند ہیں ۔ یہ قول وقرارکچھ دیر تک موثر بھی رہا مگر پھر گردش ایام کاٹ کرکاغذوں یا سرکاری فائلوں میں دم توڑ بیٹھا۔ آج کی تاریخ میں زمینی سطح پر اس صلح نامے پر کتنا عمل کیا جاتا ہے، اس بات کا حال احوال حدمتارکہ کے آرپار رہنے والوں مظلومین سے پوچھئے جنہیںہر دن دوطرفہ گولہ با ری ، آتشیںگولوں، اور بارودی سرنگوں سے پالا پڑتا ہے ۔ یہاں کبھی لگاتار اور کبھی تھوڑے وقفے سے دوطرفہ جنگ کی صورت حال سے فضا پُر تناؤ اور کشیدہ ہوجاتی اور اس کے نتیجے میں ہر سُو تباہی و بربادی کے وہ ہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ قلم لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں بہت سارے انسان نہ صرف اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں بلکہ یہ لوگ بساوقات اپنے پریوار سمیت مال مویشی اور محنت اور مزدوری سے جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ شایدوجہ یہ ہے کہ دونوں ملک کی سرکاریں سرحدوں پر بسنے والے انسانوں کو انسانی نظر سے نہیں دیکھتیںاور انسان کی قدر وقیمت حیوان سے بھی گئی گزری سمجھتی ہیں۔ بنابریں جنگ بندی معاہدوں کا پالن ہوتا ہے نہ گفت وشنید کی میز پر آکر صلح جوئی کے سامان کئے جاتے ،ان حکومتوں کو صرف تخریب اور تنفر کی آگ سلگانا آتا ہے اور بس ۔ یہ اسی کاثمرہ ہے کبھی اس پارجان ومال کا ناقبال معافی زیاں ہوتا ہے اور کبھی اُس پار یہ کہانی دہرائی جاتی ہے ۔
ہندوستانی آئین میں آرٹیکل ۱۹؍انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میںیہ الفاظ سنہری الفاظ میں لکھے گئے ہیں کہ تمام انسان عظمت و حقوق کے معاملے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی بھید بھاؤ یا رنگ و نسل، زبان اور مذہب وملت کی تمیز کے تمام شہری یکسان طور سیاسی ،سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق رکھتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا منظور کردہ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ دفعہ ۲ کے تحت ہر انسان کو حق ِمساوات عطا کرتا ہے ۔ یہ مساوات ان تمام حقوق اور آزادیوں کی بابت حاصل ہے جن کی بین الاقوامی دستاویزات میں ضمانت موجود ہے ۔ اعلامیہ کی دفعہ ۷؍ میں بھی یہ امر واقع دہرایا گیا ہے ۔اگر قانون کی نظر میں سب برابرہیں تو سرحدوں پر بسنے والے عوام کی زندگیوں سے بے دریغ کھلواڑ کیوں ؟ ان کے ساتھ سو تیلی ماں جیسا سلوک کیوں ؟ بے گنا ہلاکتوںپر قانون خاموش کیوں ؟ اگر آئین ِ ہندمیں انسانی زندگی اور انسانی حقوق لازم و ملزم قرار پاتے ہیں اور کہاگیا ہے کہ کسی بھی فرد بشر کی جان کی رکھوالی کر نا ریاست کی ذمہ داری ہے تو ایل او سی پر روز جنگ وجدل سے سوئیلین آبادیوں کی جان کے لالے روزکیوں پڑتے ہیں ؟ کیا ان کی زندگیوں کی نگہداشت ریاست کا فرض منصبی نہیں ؟
کیاآئین ِ ہندکی دفعہ ۲۱ ؍میں ہرشہری کی جان اور شخصی آزادی کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی گئی ہے ؟امریکی آئین کی پانچویں اور چودھویں ترامیم میں بھی حق ِ حیات کا اعادہ کیا گیا ہے ، جب کہ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ بھی دفعہ ۳ ؍ کے تحت ہر شخص کو زندگی ،آزادی،اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق عطا کرتا ہے لیکن ان صریح ضمانتوں کے باوجود ہندوستانی مسلمان بالعموم اور باشندگانِ کشمیر و سرحدی عوام کیلئے یہ ضمانتیں عملی طور دور کے ڈھول ہیں اور زمینی حالات اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ عوام الناس کے لئے یہ آئینی آزادیاں محض بتان ِ وہم و گمان ہیں ۔ اس کا وافر ثبوت لائین آف کنٹرول کی گھمبیر صورت احوال دیتے ہیں ۔ پونچھ کی تحصیل منڈی ،حویلی، مہنڈر، اور راجوری کی تحصیل منجاکوٹ ، راجوری، نوشہرہ، اور سندربنی علاقے پاکستان کی سرحدوںسے ملتی ہیں ۔ یہاں تقریباًہر دن دوطرفہ سیز فائر کی دونوں ممالک کی طرف سے خلاف ورزیاں جاری ہیں ۔اس کا بھگتان یہاں رہ رہے بے بس اور بے سہارا عوام کے کھاتے میں پڑتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پیچھا رات دن صرف گولی کا خطرہ اور موت کا اندیشہ کرتا رہتا ہے ۔ کیوں نہ ہو آخر یہی لوگ ہمیشہ اندھا دھند گولے باری کا شکار بنے رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سرحدوں پر اس وقت بہت زیادہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاںہو جاتی ہیں جب ہندوستان میں یومِ جمہوریہ یا یومِ آزادی کا دن منایاجاتا ہے یا جب کوئی مرکزی وزیر جموں کشمیر کا دورہ کرتا ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور یہ جگر سوز واقعات تاریخ میںخون کے آنسوؤں سے درج ہوگئے ۔ گزشتہ ماہ کی ۱۸ ؍تاریخ تحصیل مہنڈر کے گاؤں در گلون میں واقع ہوئے جان کاہ حادثے سے خطہ پیر پنجال سمیت ریاستی عوام سوگوارہوئے ۔ اس دن صبح ۵؍ بجے سے ہی فائرنگ شروع ہو گئی تھی اور ٹھیک آٹھ بجے ایک گولہ محمد رمضان کے گھر پر پڑا ، اس وقت گھر کے سارے افراد صبح کا ناشتہ کر رہے تھے ۔ ۵؍ افراد کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی اور باقی تین زخمیوں کو تین گھنٹے تک پار سے فائرنگ بند ہونے کا انتظار کرنا پڑا ۔فائرنگ اتنی زیادہ ہو رہی تھی کہ ۳؍ گھنٹے تک اس گھر کے کوئی قریب نہ جا سکا ، اس جگر پاش المیہ کے وقوع پذیر ہونے سے پورے گاؤں میں صف ماتم بچھ گئی ، ہر طرف آہ وبکاکی آوازیں گونج اٹھیں ، رنج والم کی گھٹائیں چھا گئیں ، سینہ کوبیاں اور ماتم کا سماں بندھ گیا۔ ہر دل سے بے ساحتہ آ ہیں نکل رہی تھیں ، فضا سوگواریت میں ڈوب گئی ،آنکھیںپرنم تھیں اور ہرزبان یہ درد انگیز گلہ تھا ؎
تم نے لوٹا ہے صدیوں سے ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا افسوں
چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں
تمہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
ا س میں دورائے نہیں کہ جنگ بندی کی بار بارا ور لگاتار خلاف ورزیوں سے نہ صرف انسانی جانیں جاتی ہیں اور بے زبان مال مویشی پھونک دئے جاتے ہیں ،گھر بار تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ، بہت سے متاثرہ لوگ معذور اور اپاہج ہو کے رہ جاتے ہیں اور بہت سارے لوگ بے سہارا ہونے کے علاوہ ذہنی وجسمانی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں ، کھیتی باڑی کا جنازہ اٹھتاہے ، معاش کمانے کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں، نظام تعلیم ٹھپ ہوجاتا ہے، اسکول اور کالج ماند پڑجاتے ہیں ۔ یہی کچھ سال ہا سال ہونے کے بعد متاثرہ آبادی کا جینا کیا کوئی جینا ہوا؟ ریاست جموں کشمیر کی حکومت بھلے ہی کشمیر اور پیر پنچال میں تعمیرو ترقی کے جھوٹے دعوے کرتی پھرے ، زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا سوائے لاشیں ڈھونے ، مارے جا نے والوں کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار مشتہر کر نے ، بر باد کی گئیں بستیوں میںملبہ ہٹاکر ہتھیار ڈھونڈ نے کے ۔ اس تعلق سے اضافی بات یہ ہے کہ سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماںجیسا سلوک بھی کھلم کھلا روا رکھاجا رہا ہے ۔ ان بے نوا عوام کو جدید سہولیات دینا تودور ،ان کے بچاؤ کے لئے خفاظتی بنکر تعمیر کئے گئے ہیں اور نہ ہی کسی ایمر جنسی کی صورت میں درکار پیشگی طبی انتظامات کا کوئی بندوبست ہے ۔ ہاں البتہ فوٹو سیشن کے لئے اس بار ریاست کی وزیر اعلیٰ مگر مچھ کے آنسووں بہانے کیلئے درگلون پونچھ پہنچیں اور وہاں ہمیشہ کی طرح لوگوںکو سنہرے سپنے دکھا کر کہا اس میں سرکار کا کوئی قصور نہیں ، نیز متاثرین کے حق میں ۲۵؍ لاکھ روپے ایکس گریشیا کا اعلان کیا ۔ اللہ اللہ خیر صلا! یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کبھی بھارتی فوج کا ایک جوان مرتاہے تو مرکز اس کے پریوار کے حق میںایک کڑوڑ روپے ریلیف کا اعلان کرتا ہے اور ایک سرکاری نوکری بھی ہلاک شدہ جوان کے لواحقین کو دی جاتی ہے لیکن ایک عام شہری کے مرنے پر اس کے پریوار کو صرف ایک لاکھ روپے دئے جاتے ہیں اور اس رقم کا ایک حصہ اسے سرکاری کاغذ بنانے میں متعلقین کے چائے پانی میں لگ جاتا ہے ، بلکہ ایک عرصہ تک مرنے والے کے پریوار والوں کو صرف سرکاری دفتر کے چکر پہ چکر لگانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ؎
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں مگر امداد نہیں کرتے
ایک اور پہلو سے پونچھ میں پیش آئے خون آشام المیہ پر تجزیاتی نگاہ ڈالئے ۔ ا س واقعہ پر ہندوستانی میڈیا نے مہنڈر کے مقامی ممبر اسمبلی جناب جاوید رانا کا بیان بڑھا چڑھا کے پیش کیا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم میں اگر دم ہے تو لاہور میں اپنا جھنڈا گاڑ دیں ، نہیں توکشمیر کو چھوڑ دیں ، اب ہم اور جانیں نچھاور نہیں کر سکتے ۔تقریبا ً۵ دن تک یہ بیان میڈیا کی ہیڈ لائین بنا رہا مگر حیرت کامقام یہ ہے کہ محمد رمضان کے گھرانے پر ٹوٹی قیامت اور ۵ نہتے اور معصوم لوگوں کی ہلاکت کے بارے میں اس بھینگے میڈیا نے ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہ بولا۔ سر حدی عوام کے تئیں ہندوستانی حکومت کی بے رخی اور عدم توجہی کا اس بات سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک نہ ہی کسی مرکزی وزیر نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور نہ ہی تادم تحریر یہاں پیش آئے ہلاکت آفرین واقعہ میں کام آنے والوں کے لواحقین کے حق میں کسی کوئی سرکاری امداد کا اعلان کیا ہے۔ بہر کیف ریاستی سرکار نے ہر بار کی طرح اس بار بھی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ مرکزی سرکار سے مل کر پاکستان سے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں عوام سے ان باتوں کا اظہار کیا لیکن ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض لوگوں کو ٹرخانے کی سوا اور کچھ بھی نہیں ہے،اور حال ہی میں مر کزی حکومت نے لوک سبھا میںیہ حقیقت اظہرمن الشمس کردی کہ ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے حکومت ہند کو پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ ریاست جموں میں دائمی امن قائم کر نا اُس وقت تک دیوانے کی بڑ ہے جب تک مسئلہ کشمیر کا کوئی پُر امن ، منصفانہ اورقابل قبول حل نہیں نکالا جاتا ۔ انڈیا کو چاہیے کہ بڑے بھائی کی حیثیت سے پڑوسی ملک پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور بقائے باہم کے جذبے سے بات چیت رُکاپڑا سلسلہ از سرنو شروع کر کے برصغیر کے عوام کو امن شانتی اور تعمیر وترقی کی فضا دے۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر سرحدوں پر امن وامان برقرار رکھا جاسکتاہے ۔جب تک یہ نتیجہ خیزقدم نہیں اُٹھایا جاتا ، اُس وقت تک ریاستی سرکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے بلکہ سرحدی آبادی کوتحفظ دینے کے لئے سرحدی بستیوں کے نزدیک خفاظتی بنکر بنائے، طب و صحت کیلئے کارآمد انتظامات کرے، ایمبولینس سروس کا معقول بندوبست رکھے، تعلیم و تدریس کی برقراری کیلئے قابل عمل حکمت عملی وضع کرے، تاکہ یہ بے آسرا لوگ بھی آرام اور سکھ چین کی سانس لیں سکیں ۔ آخر پر بات ریکارڈ میں لانی ضروری ہے کہ سرحدوں پر ایسے غم انگیز و اقعات مرکزی اور ریاستی حکمرانوں اور لیڈروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کیا یہ ان کی حکمرانی اور سیاست پر ایک بدنما داغ نہیں ہے کہ سری نگرسے لے کر سرحدوں تک باربار پیروجوان اور پھول جیسے بچے بچیاں خواتین سفید کفن میں ملبوس دکھائی دیں ؟ یہ حاکم اور نیتا کی کہیں، بہر صورت کسی بھی ذی حس انسان کیلئے یہ بد ترین مناظر ہیں ۔ کر سی کے پر ستاروں کے دلوں میں یہ سلگتی آگ کوئی محلِ غم نہ بھی ہو مگر عام لو گوں کے دل حالات کی اس جھلستی تپش سے سوختہ ہورہے ہیں اور ان کے سینوں درد کا دھواں ٹھ رہا ہے ۔ آج اس غم و اندوہ کے سخت ترین موقع پر ہر انسان دوست اور امن پسند اللہ تعالیٰ سے دست بد عا ہے کہ مالک ِکائنات نہ صرف ہمارے ان معصوم شہداء کے طفیل ریاست میں جنگ وجدل کا خاتمہ کر ے بلکہ دونوںملکوں کے حکمرانوں کو آلام وآفات سے متاثرہ عوام کا دُکھ درد سمجھنے اور خلوص دل سے مل بیٹھ کر اس مسئلے کا دائمی و منصفانہ حل نکالنے کی راہ پر ڈالے ؎
مت پوچھ میرے صبر کی وسعت کہاں تک ہے
ستا کر دیکھ لے ظالم تیری طاقت جہاں تک ہے
ستم گر تجھ سے اُمید کرم ہو گی جنہیں ہو گی
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہاں تک ہے
رابطہ :شعبہ قا نو ن سینٹرل یو نیو رسٹی کشمیر
مو با ئل:؛8492832130