حکومت کا فائیدہ حقداروں کو نہیں بلکہ بہروپیوں کو مل رہا ہے کسی دہشت گرد کو سرکاری ملازمت نہیں دی گئی

 رشتہ داروں کو سزا دینے کی کوئی جوازیت نہیں: عمر عبداللہ

جموں// نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کو کہا کہ جموں و کشمیر کی سابقہ حکومت کی طرف سے کسی بھی دہشت گرد کو سرکاری ملازمت نہیں دی گئی، اور کہا کہ ان کی پارٹی دہشت گردوں کے رشتہ داروں کو سزا دینے کی کسی پالیسی کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ یہ قدرتی انصاف کے خلاف ہے۔ مجالٹہ نگروٹہ جموںایک عوامی ریلی سے خطاب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے – آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد شہر میں ان کی پہلی ریلی میںعمر عبداللہ نے “شہری آبادی کے خلاف پولیس کے غلط استعمال” کا مسئلہ اٹھایا۔انہوں نے کہا”کسی دہشت گرد کو (سرکاری) نوکری نہیں دی گئی لیکن ہم نے لوگوں کو سزا نہیں دی کیونکہ وہ دہشت گردوں کے رشتہ دار تھے۔ کیا تمہارے باپ یا بیٹے کے جرم کی سزا تمہیں دینا میرے لیے مناسب ہے؟ کل اگر خدانخواستہ (لیفٹیننٹ گورنر) منوج سنہا کا کوئی قریبی رشتہ دار جرم کرتا ہے تو کیا اسے جیل بھیج دیا جائے؟ ۔وہ سنہا کے حالیہ الزامات پر ایک سوال کا جواب دے رہے تھے کہ جموں و کشمیر میں پچھلی حکومتوں نے دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کو ملازمتیں فراہم کیں اور ایک لاکھ بیک ڈور تقرریوں کی سہولت فراہم کی۔انہوں نے کہا”قدرتی انصاف یہ نہیں ہے کہ رشتہ داروں کو کسی اور کے جرائم کی سزا دی جائے۔ کوئی بھی اس بات کی وکالت نہیں کر رہا ہے کہ کٹر عسکریت پسندوں کو سرکاری ملازمتیں دی جانی چاہئیں لیکن کسی کو محض اس لیے سزا دینا بھی غلط ہے کہ ان کا دہشت گرد سے تعلق ہونے کی بدقسمتی ہے،‘‘ ۔”یہ لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کا طریقہ نہیں ہے، یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کی ہم کبھی حمایت کریں گے۔”سنہا کے اس بیان پر کہ 47 ملازمین کو ملک مخالف سرگرمیوں کے لیے برطرف کیا گیا تھا، عمر عبداللہ نے کہا، ”میں لفظوں کی جنگ میں نہیں جا رہا ہوں اگر لاکھوں تقرریوں کے لیے آپ کو صرف 47 کی فہرست مل جائے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ” انہوں نے کہا، ’’ہم اس بات کی تحقیقات چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں بلیک لسٹ ہونے والی APTECH کو ٹھیکہ کیسے دیا گیا اور گھوٹالے کہاں ہوئے۔””ہم نے سنا ہے کہ معاہدہ منسوخ ہو گیا ہے لیکن نوجوان اب بھی خوش نہیں ہیں۔ آپ (ایل جی) کو نوجوانوں کو یقین دلانے کی ضرورت ہے،” سابق وزیر اعلیٰ نے کہا، جموں و کشمیر انتظامیہ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ انتظامیہ پولیس کا غلط استعمال کرنا پسند کرتی ہے۔ بلیک لسٹڈ کمپنیوں کو یہاں لایا جاتا ہے لیکن ایماندار اور موثر ٹھیکیداروں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ٹھیکے دینے کی کوشش کی جائے جو ایماندار ہوں اور جو کمیشن دیے یا لیے بغیر کام کر سکیں۔ عام شہریوں کے خلاف پولیس کا غیر معمولی استعمال برا ہے‘‘۔اس سے قبل مجالٹہ نگروٹہ جموں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےعمر عبداللہ نے کہاکہ گذشتہ4سال کے حالات و واقعات سے جموں و کشمیر کے لوگ پریشان ، بے چینی اور غیر یقینیت کے شکارہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں میں وہاں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ حقیقی مسکراہٹ اور خوشی کہیں بھی دیکھنے ملتی نہیں ہے۔ اگر کوئی تھوڑی دیر کیلئے مسکرا بھی دیتا ہے تو فوری طور پر اندر کی پریشانیاں اور دکھ و درد اُس پر حاوی ہوجاتا ہے۔جہاں بھی دیکھو وہاں لوگ مایوس اور پریشان۔ جن کے پاس زمین کا چھوٹا ٹکرا ہے آج وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ پتہ نہیں کب حکومت کا کوئی فرمان آئے گااورانہیں اپنی زمین سے الگ کیا جائے گا۔ جن زمینوں پر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے یہاں جموں، لداخ اور کشمیر کے لوگوں کو مالکانہ حقوق دیئے ،اُن زمینوں پر آج حکمرانوں کی نظریں ہیں۔بجائے اس کے کہ موجودہ حکمران پانی پانی فراہمی کیلئے ٹینکر ، بچوں کو سکول لے جانے کیلئے بسیں اور مریضوں کو ہسپتال لے جانے کیلئے ایمبولنسوں کی خریداری کرتے موجودہ حکمران بلڈوزروں کی خریداری میں مصروف ہیں۔عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہاں حقدار کو اپنا حق نہیںملتا ہے،حکومت کا فائدہ وہ لوگ اُٹھا رہے ہیں، جو دھوکہ دہی کرکے آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بندہ گجرات سے آیا یہاں حکومت کو کہاکہ میں وزیر اعظم کے دفتر میں کام کرتا ہوں اور یہاں کے حکمرانوں نے اس کے بارے میں حقائق جانے کی زحمت بھی گوارا تک نہیں کی۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر انتظامیہ نے اس فراڈ شخص کو خوش کرنے کیلئے جس طرح سے متحرک رہی اور جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اگر اُس کا آدھا ہی یہاں لوگوں کے مسائل و مشکلات کے تئیں دکھاتے تو آج یہاں لوگ پریشان نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارے نوجوان مایوسی اور نااُمیدی کا شکار ہوئے ہوتے۔انہوں نے کہا کہ 5اگست 2019کو جب جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن چھینی گئی اور دفعہ370کو منسوخ کیا گیا تو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہاں کے نوجوانوں کو گھر بیٹھے بیٹھے نوکریوں کے آرڈر مل جائیں گے۔ لیکن 4سال ہوگئے تب سے لیکر ہمارے نوجوان یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کہاں گئے وہ آرڈر؟ اُلٹا ایک دن بھرتی عمل کی فہرست نکلتی ہے ، دوسرے دن شکایت ہوتی ہے اور تیسرے دن اسے منسوخ کیا جاتا ہے اور ایک منصوبہ بند طریقے سے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تاریخ بنانے کی مذموم کی جارہی ہے۔انہوںنے کہاکہ موسم اور رہن سہن کے علاوہ دیگر کئی چیزوں میں کشمیر اور جموں کے درمیان کافی فرق ہے لیکن موجودہ دور میں ایک ایسی چیز ہے جو دونوں طرف برابر ہے اور وہ لوگوں کی پریشانی، ناراضگی اور مایوسی ہے۔ اجتماع میں دیگر لوگوں کے علاوہ اجے کمار سدھوترا، جاوید رانا، عبدالغنی ملک، بابو رام پال، اعجاز جان، چودھری نسیم لیاقت، شیخ بشیر احمد، ماسٹر نور حسین، بملا لتھرا، ستونت کور ڈوگرہ اور مہندر سنگھ بھی موجود تھے۔ اجتماع کا انعقاد ڈی ڈی سی سی دنسل شمیم بیگم اور بی ڈی سی چیئرپرسن چودھری رحمت علی کیا تھا۔