حسَد۔ ایک سنگین روحانی مرض فکر انگیز

ڈاکٹر آزاد احمد شاہ

حسد کے لغوی معنیٰ کسی دوسرے شخص کے پاس پائی جانی والی نعمت یا اس شخص میں موجود خوبی یا اسکی کامیابی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے
امام جرجانی ؒحسد کے اصطلاحی معنی یوں بیان فرماتے ہیں،’’حسد سے مُراد ہے،صاحبِ نعمت سے نعمتوں کے زوال کی چاہت کرنا اور حاسد یہ تمنا کرتا ہے کہ دوسروں سے نعمتیں چِھن کر اُسے مل جائیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں مومنین کو تلقین فرماتا ہے کہ تم اللہ کی پناہ مانگو ان لوگوں کے شر سے جو حسد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اور (میں پناہ مانگتا ہوں رب کی) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ (الفلق: 5)
اس آیت کریمہ کے تناظر میں جب حسد کے جذبے کو دیکھا جائے تو یہ ایک منفی جذبہ نظر آتا ہے جو ایک روحانی بیماری کی صورت میں حسد کرنے والے انسان کے دل میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اور حاسد انسان اپنے حسد کرنے کی وجہ سے اپنی ذہن کی منفی توانائی اور اپنی فطرت کی بد نیتی کی وجہ سے جس انسان سے اسکی خوبیوں کی وجہ سے یا اسکے پاس اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے حسد کر رہا ہوتا ہے اس اچھے انسان کی زندگی پر اپنی بدنیتی، اپنے بد فعل اور اپنی بد نظری کی بدولت منفی اثرات ڈال رہا ہوتا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ نظر کا لگنا ایک محاورہ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ مگر اسلامی نقطہء نگاہ سے نظر کا لگنا برحق ہےاور یہی بد نظری ہوتی ہے جو حاسد انسان کے حسد کی وجہ سے کسی دوسرے انسان یا مخلوق کو لگتی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ و علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نظر کا لگنا برحق ہے بد نظر اونٹ کو ہانڈی میں اورانسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مندرجہ بالا آیت کریمہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ تم حسد کرنے والوں کے شر سے بچنے کی دعا کیا کرواور خود کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے شر سے بچنے کی خاطر اللہ کی پناہ میں رکھو۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو‘‘۔(صحیح بخاری(:حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالیٰ بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (قطع تعلق کرے)‘‘(صحیح بخاری)۔حضرت ضمرہ بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔(طبرانی فی الکبیر )
ہر اخلاقی برائی کا اثر سب سے پہلے اُس برائی میں مبتلا انسان پر ہوتا ہے جس کی بدولت وہ انسان مثال کے طور پر اگر حسد کرنے کی برائی میں مبتلا ہے تو یہ اخلاقی و روحانی بیماری اسکے اپنے ذہن و قلب کے سکون کو برباد کرتی ہے اور پھر اس حاسد انسان کی یہی بے سکونی جب شدت اختیار کر لیتی ہے تو پھر وہی روحانی طور پر بیمار انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں اور معاشرے میں اپنی منفی سوچ اور فعل کی وجہ سے بد امنی کا باعث بنتا ہے۔
ایک حاسد انسان کبھی بھی یہ نہیں مانے گا کہ اس میں یہ اخلاقی و روحانی بیماری موجود ہے مگر ہم ایسے انسان کو اسکی دو خصلتوں کی وجہ سے با آسانی پہچان سکتے ہیں۔ نمبر ایک تو حاسد انسان کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور ناخوش ہوتا ہے ، اسکی دوسری نشانی یہ ہے کہ حاسد انسان اس دوسرے انسان کے نقصان کی تمنا کرتا ہے یا نقصان ہوجانے پر خوش ہوتا ہے۔ اب اگر یہ دو نشانیاں آپ میں موجود ہیں تو جان لیں آپ ایک بہت خطرناک اخلاقی و روحانی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آپکو ہر ممکن سعی و کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے لئے دعا کرتے ہوئے اس روحانی بیماری سے چھٹکارا حاصل کر سکیں تاکہ آپکی باقی عبادت بھی رائیگاں نہ جائیں۔
حسد کا اُلٹ رشک کرنا ہوتا ہے۔ رشک کرنا روحانی بیماری نہیں بلکہ یہ نیک جذبہ ایک انسان کے روحانی و اخلاقی طور پر صحتمند ہونے کی علامت ہوتا ہے۔ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔
یاد رکھیں منفی جذبات ہمارے جسمانی و روحانی نظام پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور مثبت جذبات ہمارے جسمانی و روحانی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ایک خاص نقطہ ذہن نشین کر لیں کوئی بھی دل میں پیدا ہونے والا جذبہ اسوقت تک گناہ یا ااخلاقی و روحانی بیماری نہیں ہے جب تک یہ ایک پختہ جذبے کی صورت میں دل میں گھر نہ کر لے اور حسد کی تعریف پر پورا نہ اُترے۔ ہاں اگر کسی دوسرے انسان کی ترقی دیکھ کر اسکے حالات اپنے سے بہتر دیکھ کر اس جیسا بننے کی تڑپ دل میں پیدا ہو اور ترقی کی خواہش دل میں جنم لے تو اس سے معاشرے میں ایک مثبت مقابلے کی دوڑ میں آپ شامل ہوں گے، آپکی یہ تمنا تب حسد نہیں کہلاے گی۔ بلکہ مسابقت کی طلب کی یہ مثبت سوچ اور دوڑ جسے رشک کہا جاتا ہے ایک ترقی پذیر معاشرے کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔
حسد کی اصطلاح رشک کے معنوں میں بھی احادیث نبوی میں وارد ہوئی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں بیان ہوا ہے :
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ حسد (رشک) صرف دو چیزوں پر جائز (مستحسن) ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :حسد (رشک) صرف دو شخصوں پر (مستحسن) ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسرآتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔(بخاری)
اسکا مطلب یہ ہے کہ دینی امور میں رشک کرنا ایک مستحسن عمل ہے کیونکہ اس سے دینی میدان میں مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور انسان روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو پانے کی نہ صرف دل میں تڑپ پیدا کرتا ہے بلکہ ان بلند درجوں اور مراتب کو پانے کی کوشش اپنی عبادت کے ذریعے کرتا ہے۔ایک حاسد انسان اپنا علاج خود کر سکتا ہے بشرطیکہ اسکو پہلے یہ ادراک حاصل ہو کہ وہ حسد کی روحانی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔ جب بیماری کی تشخیص ہو جائے تو علاج کرنا اتناہی آسان ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر حاسد انسان کو اپنی منفی سوچ کو بدل کر مثبت کرنا ہوگا۔اللہ ہم سب کو اس سنگین روحانی بیماری سے محفوظ رکھے۔ – آمین
(مضمون نگار ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں )
[email protected]