حسرتوں کے کانٹے! میری بات

سیدہ عطیہ تبسم

زندگی کو حسرتوں کا مجموعہ کہا جائے تو بجا ہو گا۔ یا حسرتوں کو زندگی کی تجوری کا ایک انمول خزانہ تسلیم کیا جائے تو یہ بھی درست ہو گا۔ افسوس، پشیمانی، احساسِ محرومی، مایوسی، ارمان، شوق، تمنا، خواہش جیسے الفاظ لفظِ ’’حسرت‘‘ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انگریزی کے بھی کئی الفاظ اس کے ترجمان ہونے کے دعوےدار ہیں جیسے Grief ,longing, mistfullness وغیرہ ۔ مگر جو زورِ بیان اس لفظ ’’حسرت ‘‘میں پوشیدہ ہے وہ کسی دوسرے ہم معنی لفظ میں کہاں!
سوال یہ ہے کہ زندگی کی پھولوں بھری سیج میں حسرت نام کے اس کانٹے کا کیا کام اور مقام ہے؟ یہ انگنت حسرتیں آتی کہاں سے ہیں کسے خبر، کون جانےان کا پتہ ۔ شاعر نے اسی سوال کا جواب مبہم لہجے میں کچھ اس طرح دیا ہے :؎
اب دل کی تمنا ہے کہ اے کاش
آنسو کی جگہ دل سے حسرت نکل آئے
دل کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ دل کے یہاں حسرتوں کا ہجوم ہوتا ہے ۔ خواہ وہ حسرتِ دید ہو یا حسرتِ وصل ہر عاشق کا محبوب مشغلہ رہتا ہے۔ خیر کیا اہلِ دل ،کیا بے دل ہر شخص کو کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں یہ حسرت بھرا کانٹا چبتا ضرور ہے، اور اتنی شدّت سے چبتا ہے کہ اک احساسِ محرومی باقی سب پا لینے کے بعد بھی کبھی منقطع نہیں ہوتا ہے۔
مجھے یہ دنیا ایک تلسمی خلونوں کی دکان (magical toy store) لگتی ہے ۔ جہاں ہر آنے والے شخص کی نگاہیں اپنے من پسند کھلونے کو چن تو لیتی ہیں مگر ہر بار وہ اسے حاصل نہیں ہوتا ۔ ہاتھ جوں ہی اسے چھونے لگتے ہیں وہ کسی اور کی ٹو کری میں جا گرتا ہے۔ اسطرح اکثر و بیشتر یہ کھلونے ایکسچینج (exchange) ہو جاتے ہیں۔ اس کھیل میں کسی کی پسند کسی دوسرے کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور یہ مقدر کے طلسمی فیصلے دونوں کے لئے آزمائش کا سامان بن جاتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ آزمائشوں کے بوجھ حسرتوں کے دلکش داغ بن جاتے ہیں ۔ مگر جس طرح اہلِ زمیں کو فلک پر سجے چاند کی فقط چمک دکھتی ہے، داغ نہیں ۔ اسی طرح اس میجیکل ٹوئے سٹور میں کسی کو کسی کے داغ نظر نہیں آتے ، بس ایک دوسرے کی وہ چہرے کی چمک دکھتی ہے جو اس من پسند کھلونے کو گھورتے وقت نگاہوں میں تھی۔ ان داغوں سے خالی شاید ہی دنیا کا کوئی دل ہو ۔ غالب نے اسی احساس کو ان الفاظ میں دھالا ہے :؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش میں دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
یہ حسرتوں اور ارمانوں کا تسلسل انسان کی سانسیں ٹوٹنے سے قبل نہیں ٹوٹتا ہے۔ سینکڑوں مکمل ہو جائیں تو ہزاروں جنم لیتی ہیں ۔ مگر وہ ایک معیاری حسرت جو باقی تمام حسرتوں پر غالب آنے کا دم رکھتی ہے، انسان کے وجود کوپُر نور بنا دیتی ہے۔ یہ ایک حسرت اہلِ حسرت کے دل میں وہ خلا پیدا کر دیتی ہے جسےپُر کرنے کے لئے وہ دنیا کو فتح کر لیتا ہے۔ ہر شے پا لینے کے باوجود یہ احساسِ محرومی اسے کبھی متکبر نہیں ہونے دیتا بلکہ مزید عاجز اور دلکش بنا دیتا ہے۔ حسرت زدہ شخص نہایت دلکش، حسین اور با وقار ہوتا ہے۔ گویا یہ حسرتیں فقط وجود کو چھلنی نہیں کرتی بلکہ اسےپُر نور کرنے کا دم بھی رکھتی ہیں ۔
کسی حسرت کی بدولت ہی تو وہ ایک آنسو آنکھ کو نصیب ہوتا ہے جو گہر سے نایاب ہوتا ہے، جس پر فرشتے رشک کرتے ہیں ۔ پھر بھی نہ جانے کیوں انسان اس حسرت کے گہر کو اتنا حقیر سمجھتا ہے۔
(رابطہ۔9797875771)
[email protected]