حجاب۔حِفظ واَمان کی زبان ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم آسمانوں سے نازل فرمایا تاکہ ایک عورت بے حیا اور بے شرم لوگوں کی گندی نظروں سے محفوظ رہے ۔ اور اسکی عزت داغدار نہ ہوجائے اور نہ ہی کوئی مرد اس پہ حملہ کرے ۔ جبرائیل علیہ السلام کو اللہ نے خصوصی طور پہ پردے کے احکام نازل کرنے کے لیے نبی صلی الہ علیہ وسلم کے پاس بیجھا جو کہ سورہ الاحزاب میں وارد شدہ ہے ۔قرآن کریم میں ہے کہ ’’عورتوں سے کہو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لیں اور پردہ کریں ۔یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان سے خواہ مخواہ چھیر چھاڑ کی جائے۔‘‘ 
ظاہر ہے کہ عورت کا بے تکلفی کے ساتھ بے پردہ رہنے سے معاشرےمیں جنسی بے راہ روی جنم لیتی ہے ، جب ایک عورت بناؤ سنگھار کرکے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسکے ساتھ شیطان بھی ہوتا ہے جو کہ اسکو بہکاتا ہے ۔ ایک عورت کی تخلیق اللہ رب العزت نے بڑے خوبصورت انداز سے کی ہے،اسکے جسم کی ساخت ، اسکا چلنا پھرنا، اسکی آواز غرص ہر ایک چیز میں ایک الگ سا نکھار ہے اور جب یہی عورت بے پردہ ہو کربازاروں میں آجائے تو نہ جانے کتنے فتنہ وفساد برپا ہوجاتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں عورتوں کو آزاد نسواں کے حقوق دے کر اُس کے اصلی حقوق جو کہ اسلام نے اسے فراہم کئے ہیں، پامال کئے گئے ہیں۔ وہاں عورتوں کو ناچ گانوں ،بے حیائی اور بدکاری کو فروغ دے کر خواتین کو اپنے وجود سے بے خبر کر دیا گیا ہے اور دور جہالت کی انہیں استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ یہ حال پہلے مغرب تک محدود تھا لیکن اب ہر سُو یہی صورت ِ حال نظر آرہی ہے۔ اب عورت، عورت نہیں رہی بلکہ بازار کا کھلونا بنا دی گئی ہے۔ جس عورت کے بارے میں قرآن نے فرمایا مرد عورت کے لیے لباس ہے اور عورت مرد کے لیے لباس یعنی ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہے۔ لیکن افسوس کہ اب اس کے بالکل برعکس ہوچکا ہےگویااس کو ذلت و پستی کی نچلی سطح پرپہنچا دیا گیا ہے ۔ 
جو عورت بنائو وسنگھاراورنا شائستہ لباس زیبِ تن کئے گھر سے باہر نکلتی ہے تو  ہر شیطانی نظر قدم قدم پر اُس کو پھسلاتی رہتی ہے اور بے حیائی کی کاموں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جب ایک عورت بے حیا بن جاتی ہے تومعاشرہ خود بہ خود بگڑ جاتا ہے، کیونکہ معاشرے کی بنیاد عورت پرہی تو کھڑی ہوتی ہے ۔
ایک عورت کا سج دھج کر گھر سے نکلنا جہالت کی دلیل ہے ۔ عورت کو اللہ اور اسکے رسولﷺ نے غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔اس حکم کی تعمیل کرنا ہمارے لئے فرض بن جاتا ہے۔ حجاب کرنا مسلمانوں کے علاوہ ہندو مذہب میں بھی وار دشدہ ہے ۔ کوئی بھی باایمان اپنے عزت نفس اور عصمت کا سودا کرکے خود کو جہالت کی پستیوں میں نہیں لاسکتا ۔ حال ہی میں کرناٹک میں حجاب نہ پہننے کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا۔ اور حجاب کرنے والی لڑکیوں کو بہت سختی کے ساتھ ستایا گیا ۔ الحمد للہ وہ اتنی باایمان تھیں کہ انہوں نے اپنی قوت ایمان اور بہادری کے ساتھ حق کا نعرہ بلند کیا اور دین اسلام کی پاسبانی کی ۔ لہٰذا قوم کی ہر بیٹی کو اسکے لیے تیار رہنا چاہے اور صحابیات کو اپنے لیے مثالی شخصیت بنانا چاہے کہ انہوں نے کیسے اپنی زندگی گزاری اور کسطرح دین کی خدمت انجام دی ۔ اپنے حق کے خلاف آواز اٹھانےسے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ اس دنیا میں رہنا کا حق جتنا ایک غیر مسلم کو ہے اتنا ہی ایک مسلمان کو بھی ہے ۔ ہاں!یوم حشر میں ہر ایک کا جزا و سزا اس کے اعمال کے مطابق دیا جائے گا ۔ دنیا میں کسی بھی مذہب سے وابستہ لوگوں کو دوسرے مذاہب میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی مسلمان ،کسی غیر مسلم کو دعوتِ دین دےتو اگر وہ غیر مسلم حق بات قبول کرنے کے لیے تیار ہے تو ٹھیک ورنہ کوئی زور زبردستی نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود قرآن پاک میں فرماتےہیں کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ 
  ایک عورت دین کی خدمات مختلف جہتوں سے انجام دے سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنی صحابیات کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے جنگوں میں کتنی بہادری سے کام کیا ہے اور ایک مومنہ کا شیوہ یہ نہیں کہ وہ بزدل ہو، بلکہ وہ باغیرت ہوتی ہے، اگر اسکے سامنے اسلام کی بغاوت کی جاتی تو وہ بالکل برداشت نہیں کرپاتی بلکہ وہ اسکے خلاف آواز اٹھاتی ہے ۔ ہماری صحابیات نے بھی جنگوں میں دین کی بہت خدمات انجام دیں ۔ انہوں نے دوران جنگوں میں خیموں کی حفاظت کی ،زخمیوں کی مرہم پٹی کی اور انکو پانی پلایا کرتی تھیں ۔ ایک صحابہ جنکا بیٹا اور شوہر دونوں جنگ میں شہید ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ وہ تب بھی پردے میں رہیں، جب لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ آپکا شوہر اور بیٹا دونوںجنگ میں شہید ہوگئے اور آپ پھر بھی پردے میں ہیں؟اُنہوں نے جواب دیا:بیشک میں اپنا شوہر اور بیٹا کھو چکی ہوں لیکن اپنی حیا نہیں ۔ پردہ عورت کے لیے نہ کوئی عیب ہےاور نہ کوئی قید، بلکہ یہ اسکی عزت و عصمت کا محافظ اور سکون ہے۔ 
دین کا علم حاصل کرنا چونکہ ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہیں ۔ لیکن اب اگر کوئی عورت دنیاوی علوم بھی حاصل کررہی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ لیکن جو تعلیم عورت کو اسکی پہچان کو مسخ کرے، اسکے سر سے ڈوپٹہ چھین لے ،اُسے بے پردہ کردے،وہ تعلیم بے سود ہے ،اور یہی تعلیم پھر انسان کے لیے تباہی اور رسوائی کا باعث بن جاتی ہے ۔ اگر بنت حوا اپنے وجود پہ غور کریں کہ اسلام نے ہمیں کون سامقام دیا ہے تو کوئی بھی مسلمان عورت بے پردہ نہیں رہے گی ۔جو بھی لوگ حجاب پہ پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں  وہ اپنی قوم میں مزید بے حیائی پھیلانے کی درپے ہیں۔ جب ایک لڑکی اپنا وقار جان لے گی اور اللہ کے بے لاگ فیصلے پر عمل کرے گی تو وہ معاشرے کی مثالی خاتون بن جائے گی اور اسی معاشرے سے قوم کی بھلائی ہوگی۔
معاشرے کو بُرائیوں سے بچانے اور اخلاقی بگاڑ سے دور رکھنے کے لیے حیا اور پردہ ضروری ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک صرف اسلامی معاشرے میں پردہ رائج رہا ہے، اور ہر باایمان انسان اللہ کے اس حکم کو بجا لاتا ہے ۔ پردے کے وہی لوگ منکر ہے جو دین کو چھوڑ کر صرف اپنے خواہشات نفس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ظاہر ہے کہ اللہ کے حکم کو جھٹلانے والا منکرین بن جاتے ہیں اور جو حق سے انکار کرتاہے ، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے جو بہت بڑا جرم ہے ۔ پردے کا منکر وہی ہوگا جو خدا اور یوم آخرت سے بے خوف ہوگا ۔ 
 ایک نوجوان لڑکی کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض بن جاتا ہے اور اللہ کے احکامات جو قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیںکو بجا لانے اور اُن پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے، تاکہ غذاب الہٰی سے انسان بچ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں آسمان سے پھینکا جاؤں اور میرے دو ٹکڑے ہوجائیں، یہ میرے لیے زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کسی کے پوشیدہ مقام کو دیکھ لوں یا کوئی مجھکو دیکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر بھی لعنت کی، جو لباس پہن کر بھی ننگی نظر آتی ہو ۔ اللہ تعالی نے بھی انسان کو اسلام میں بھی پہلا درس یہ دیا کہ اے اولاد آدم! اللہ نے تم پر لباس اس لیے اُتارا تاکہ تمہارے جسموں کو ڈھانپ لیں اور یہ تمہارے لیے باعث زینت بن جائیں۔یاد رہے کہعورتوں کو ضعف اور ستر سے پیدا کیا ہے ،ضَعف کا علاج خاموشی ، ستر کا علاج پردہ اور پردہ کے معنیٰ آنکھ کی شرم ہے۔اس لئے پردہ کرو کیونکہ ہمارا خدا بھی پردے میں ہے، پردہ حفظ و امان کو آواز دیتا ہے اور حُسن اور عفت کا محافظ ہوتا ہے۔لہٰذا مرد و عورت دونوں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ پردہ کریں ۔ امتِ مسلمہ ہونے کے ناطے ہم پہ فرض ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کریںاور جہاں بھی ہم دیکھیں کہ کسی بیٹی کی عزت وآبرو پہ انگلی اُٹھائی جائے تو وہاں باطل کے خلاف آواز ِحق بلند کریں۔تاکہ ہر بنتِ حوا،ہوس پرست لوگوں سے محفوظ رہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے۔آمین  
(آونیرہ شوپیان۔ فارغہ : جامعةالبنات سرینگر)