جہیز کے بغیربہوکی قدرومنزلت ؟ فکر انگیز

سیدہ رباب نقوی،پونچھ

جہاں ایک طرف سائنس نے خوب ترقی کر لی ہے،وہیں شرح خواندگی کے گراف میں بھی دن بدن اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اپنے ملک ہندوستان کی ہی اگر بات کریں تو ملک میں شرح خواندگی سال 2022کی ایک رپورٹ کے مطابق 77.7فیصد ہے،جبکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق یہ شرح 73فیصد تھی۔یعنی لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا رجہان بڑھا ہے۔ وہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تعلیمی طور پر اتنی بیداری آنے کے بعد بھی، ہمارا سماج رسم و رواج اور پرانی سوچ کی بیڑیوں سے آزاد نہیں ہو سکا ہے۔اتنا پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی معاشرے میں کچھ ایسی خرابیاں موجود ہیں جو اس کی اہمیت کو کم کر دیتی ہیں۔کچھ ایسے رسم ورواج ہیں جسے جاری رکھنے میں سماج فخر محسوس کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ دور جاہلیت والی سوچ اور عمل ہے۔اس کڑی میں جہیز جیسی لعنت بھی شامل ہے۔ اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔لیکن با وجود اس کے آج اس رسم نے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں اور ایسا لگتا ہے اس لعنت سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔
یہ بات درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا ہے وہ آج معمولی ضروریاتِ زندگی بن چکی ہیں، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ بلخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسے محض رینگنے والے غلیظ کیڑے مکوڑے کی طرح سمجھا جاتا ہے۔جسے ہر پیسے والا مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر کی بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو پہنچے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے شادی کے وقت اس کی تعلیم اور اس کے حسن سلوک کو نہیں دیکھتے ہیں بلکہ جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں۔جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اس کو جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بنا پر فطری عمل کے طور پر دیکھنا چاہئے۔
لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالات بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی، ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور جسے پورا نہ ہونے لڑکی پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر نا انصافی اور غیر قانونی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جبر بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کیئے جاسکتے۔بیٹی کے جہیز کے فرنیچر کی پالش تک اتر جاتی ہے پر باپ کا قرض نہیں اترتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی جدید اور تعلیم یافتہ گھرانوں اور ہر مذہب میں یہ لعنت موجود ہے۔ حق تو یہ ہے جب جہیز کے حوالے سے توقعات پوری نہیں ہوتیں تو لڑکی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جہیز کم لانے پر اسے طعنے دئیے جاتے ہیں، میکے بھجوا دیا جاتا ہے، طلاق دی جاتی ہے۔ حالات اس طرح بنا دیے جاتے ہیں کہ کئی بار لڑکی کی خودکشی کی نوبت تک آجاتی ہے۔اسی وجہ سے گزشتہ سال ملک کی مغربی ریاست گجرات کے احمد آباد کی رہنے والی ایشاء عارف خان کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب اس نے اپنے خاوند کی طرف سے جہیز کے لئے دباؤ اور بار بار خراساں کرنے سے تنگ آکردریاء سابر متی میں چھلانگ لگا دی۔
اس سلسلے میں اگر عداد و شمار کو دیکھاجائے تو ہر دن ملک میں جہیز کی وجہ سے کو ئی نا کوئی واقعہ پیش آتا ہی رہتا ہے۔ معروف نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ’کرائم ان انڈیا 2021‘کی رپورٹ کے مطابق2017سے2021کے درمیان ملک میں ہر دن جہیزکی وجہ قریب 20اموات ہوئی ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا نے گذشتہ سال راجیہ سبھا کو ایک تحریری جواب میں بتایا کہ اس مدت میں ملک میں جہیز کی وجہ سے موت کے کل 35,493 واقعات درج کئے گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ سال2017میں جہیز سے موت کے7,466کیسیز،سال2018میں 7,167کیسیز، سال 2019میں 7,141کیسیز، سال2020میں 6,966 کیسیز اورسال 2021میں 6,753 کیسیز رپورٹ کی گئی ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جس کی رپورٹ درج ہونے سے منظر عام پر آئی ہیں۔ ملک کے دور درازدیہی علاقوں میں تورپورٹ درج نہیں ہونے سے ایسے واقعات سامنے بھی نہیں آتے ہیں۔
الغرض جہیز جیسی لعنت ہر جگہ یہ رسم عام ہوگئی ہے۔جس کی وجہ سے یا تو لڑکی کی وقت پر شادی نہیں ہو پاتی ہے یا پھر والدین قرض میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پونچھ کے سیڑھی چوہانہ گاؤں کے ایک بزرگ سرور شاہ ہیں۔جن کی نو بیٹیاں ہیں۔ان میں سے چھ بیٹیوں کی وہ شادی کرچکے ہیں۔جب راقم نے ان سے جہیز کے بارے میں سوال کیا،تو انہوں نے بڑی ہی خاموشی سے کہا کی کچھ اپنی رقم کو اکھٹا کرکے اور کچھ قرض لے کر مکمل کیا ہوں۔وہ قرض آج تک ادا نہ ہو سکا ہے۔اس سے صاف ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایسی کئی مثالیں اور ان سنی کہانیاں ہیں کہ جن والدین کی ایک دو نہیں بلکہ چھ چھ بیٹیاں ہیں مگر جہیز کی وجہ سے ان کی شادی تک نہ ہو سکی۔ ایک طرف غربت کی مار اور دوسری طرف جہیز کی مانگ نے ان والدین کی ساری خوشیاں چھین لی ہیں۔اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ حکومت نے بیٹیوں کے حوالے سے کئی اسکیمیں بھی چلائی ہیں جن میں معروف اسکیم بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ شامل ہے۔علاہ ازیں محکمہ لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ کے تحت بھی غریب بچیوں کی شادی کیلئے کچھ رقومات وگزار بھی کی جاتی ہے، مگر اس قلیل رقم سے شادی کے خرچ پورے نہیں کئے جا سکتے۔تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس لعنت کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی نہیں ہو سکتی ہے؟کیا جہیز کے بنا بہو کی کوئی قیمت نہیں ہے؟آخر کب ہمارا معاشرہ اس لعنت سے پاک ہوگا؟(چرخہ فیچرس)
رابطہ:9350461877