! والدین بچوں پر اپنا پسندیدہ سبجیکٹ نہ تھوپیں !! انہیں خود اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق سبجیکٹ کا انتخاب کرنے دیں

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

سیکنڈری ایجوکیشن سے فراغت کے بعد یعنی میٹرک پاس کرنے کے بعد بچے بچیوں کے لئے جو سب سے مشکل مرحلہ سامنے آتا ہے، وہ ہے آگے کی تعلیم کے لئے سبجیکٹ اسٹریم (subject stream) کا انتخاب۔ مروجہ سبجیکٹ اسٹریمس میں سائنس (Science)، آرٹس (Arts)اور کامرس (Commerce) ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب ہی اعلیٰ تعلیم کے لئے ضروری خیال کیا جاتا ہے حالانکہ کئی طرح کے ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسیز بھی متبادل کے طور پر موجود ہوتے ہیں، جن کی طرف طلباء کا رخ موڑا جاسکتا ہے لیکن عام طور پر لوگ ان تین تعلیمی شعبوں میں ہی خود کو محصور رکھتے ہیں۔ اس مرحلے کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ زیادہ تر بچے بچیاں اس لائق نہیں ہوتے کہ وہ خود فیصلہ لے سکیں کہ آگے انہیں کیا پڑھنا ہے اور کس پروفیشن (profession) کو اختیار کرنا ہے۔ ایسے میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین بچوں پر اپنا پسندیدہ سبجیکٹ تھوپ دیتے ہیں جس میں سائنس اول نمبر پر ، کامرس دوئم اور آرٹس سوئم نمبر پر ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں سائنس کی مقبولیت بالعموم دو پروفیشنز کی وجہ سے بہت زیادہ ہے، ایک میڈیکل اور دوسرے انجینئرنگ۔ ہر والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ان کا بچہ یا بچی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے بلکہ اس تمنا کو لوگوں نے بچوں کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی سے جوڑ رکھا ہے جو کہ ایک انتہائی غلط تصور ہے۔

یہ تصور بچوں کے ذہن میں ابتدا سے ہی اس درجہ راسخ کردیا جاتا ہے کہ جب بچے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ سمجھ کر کہ ان کی زندگی ناکام ہوچکی ہے، خودکشی تک پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ صرف کوٹا، راجستھان جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی کوچنگ کا گزشتہ کئی سالوں سے مرکز بنا ہوا ہے، سے ۲۰۱۵ء میںاٹھارہ، ۲۰۱۶ء میںستارہ، ۲۰۱۷ء میںسات، ۲۰۱۸ء میں بیس، ۲۰۱۹ء میں اٹھارہ، ۲۰۲۲ء میںپندرہ، ۲۰۲۳ ء میں ستائیس اور ۲۰۲۴ء میں اب تک سات طلباء کی خودکشی کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیں۔ ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء میں ایسا کوئی واقعہ اس لئے پیش نہیں آیا کیوں کہ کرونا وائرس کی وباء پھیل جانے کی وجہ سے کوچنگ سینٹرس بند تھے۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے خودکشی کے ایسے واقعات کی ظاہر ہے کوئی مخصوص رپورٹ موجود نہیں ہے، جس سے مجموعی تعداد کا پتہ لگایا جاسکے لیکن کوٹا کے مذکورہ اعداد و شمار ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ جو بچے خودکشی سے بچ جاتے ہیں ان میں کچھ تو ڈپریشن (depression) کا شکار ہوجاتے ہیں، کچھ مختلف قسم کے ڈرگس (drugs) اور نشہ خوری کے عادی، کچھ جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیںاور تعلیمی کیریئر تو کتنوں کا تباہ و برباد ہوتے احقر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان سارے نتائج بد کے ذمے دار اصل میں ان کے والدین یا سرپرست ہوتے ہیں جنہوں نے ان معصوموں پر اپنی پسند تھوپی ہوتی ہے۔یہ جاننا چاہیے کہ ماہرین تعلیم کی متفقہ رائے ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی ذہانت (intelligence) ، فطری صلاحیت (natural ability) ، ذاتی دلچسپی (interest) اور فطری رجحان (aptitude) کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن میں ہر بچہ دوسروں سے قدرے مختلف ہوتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ سبجیکٹ کے انتخاب یا تعلیمی حصولیابیوں (educational achievements) میں ہم اپنے بچوں کا مقابلہ دوسروں کے بچوں سے ہرگز نہ کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کی ذہانت، استعداد، دلچسپیوں اور رجحانات کا جائزہ لینا چاہیے اور ان کے مطابق ہی ان کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ اس عمل میں ان کی سابقہ حصولیابیوں کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم یافتہ والدین اپنے بچوں کی ان امتیازی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے پیشہ ور اکیڈمک یا کیریئر کاؤنسلرس کی مدد لیتے ہیںجو باقاعدہ جانچ پڑتال کے بعد ہی اپنے مشوروں سے نوازتے ہیں اور والدین ان کے مشوروں کا لحاظ بھی رکھتے ہیں لیکن ہمارے دیار میں بچوں کی ان امتیازی خصوصیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس مقابلہ آرائی میں کہ فلاں پڑوسی یا فلاں رشتے دار کے بچے نے میڈیکل یا انجینئرنگ کے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کرلی ہے، ہم بھی اپنے بچوں کو ان ہی اہداف کے ساتھ سائنس اسٹریم میں جھونک دیتے ہیں اور یہ بالکل نہیں دیکھتے کہ ان کی استعداد کیسی ہے اور ان کا اپنا ذوق کیا ہے۔ پھر ان سے اتنے اونچے توقعات وابستہ کر لئے جاتے ہیںکہ بچہ ان ہی کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے۔

انٹرمیڈیٹ میں داخلہ ہوتے ہی ہر سبجیکٹ کی کوچنگ کا غیرمعمولی اور لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ سبجیکٹ کی بنیادی معلومات کی کمی یا خلا کو کس درجہ میں پُر کیا جاسکتا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے بچے میڈیکل یا انجینئرنگ تو دور کی بات ہے ، انٹرمیڈیٹ ہی پاس نہیں کرپاتے۔ دو تین بار امتحانات میں بیٹھنے کے بعد بالآخر تارک تعلیم (dropout) ہوجاتے ہیں۔ اس مرحلے سے آگے نکلنے والے بچے معمول کے تعلیمی سلسلے کو چھوڑ کر تین تین، چار چار بار بلکہ بعض تو اس سے بھی کچھ زیادہ بار مقابلہ جاتی امتحانات (NEET اور JEE وغیرہ) میں بیٹھتے ہیں جن میں چند کو چھوڑ کر اکثر کو ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے اور ان کی زندگی کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ اس ناکامی کے نتیجے میں بچے جس مایوسی (frustration) ، احساس محرومی اور احساس کمتری (inferiority complex)کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے جو نتائج بد سامنے آتے ہیں، ان کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ ان کا یہ احساس محرومی اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے دوسرے ساتھی گریجویشن کے آخری مرحلے میںحتی کہ کچھ پوسٹ گریجویشن میں پہنچ گئے ہیں اور ان کے پاس انٹرمیڈیٹ کے سرٹیفکٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیںہے۔ اس مرحلے پر کچھ والدین پیسہ کے بل پر اپنے بچوں کو پرائیویٹ میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخلہ کروادیتے ہیں ،جہاں مالی استحصال اور تعلیم و مہارت کے نام پر ہورہی ٹھگی کی الگ کہانی ہے۔ نااہلوں کی فوج کھڑی کرنے میں ان کالجوں کا یہ عالم ہے کہ بی ٹیک (B.Tech.) اور ایم ٹیک (M.Tech.) کر کے بچے اب ہمارے یہاں بی ایڈ (B.Ed.) اور ایم ایڈ (M.Ed.) کرنے آرہے ہیںکیوں کہ جاب مارکیٹ میں وہ کسی لائق تصور نہیں کئے جاتے۔ اگر والدین تھوڑا حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرلیں اور بچوں کو ان کی صلاحیت اور ذوق کے مطابق سبجیکٹ کا انتخاب کرنے دیں تو وہی بچے جو ایک اسٹریم میں ناکام ہوئے، دوسرے اسٹریم میں بہت کامیابی کا مظاہرہ کرسکتے ہیںاور اپنا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ سائنس میں ناکام بچوں نے جب سوشل سائنس (social science) یا علوم بشریہ (humanities)؛ ادب ، فلسفہ، لسانیات وغیرہ کارخ کیا تو غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ آج بھی سائنس سے گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کرنے والے اکثر بچے بچیاں جب سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھتے ہیں تو سوشل سائنس اور لٹریچر وغیرہ کا ہی انتخاب کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان ہی موضوعات (subjects) کو ابتدا سے ہی پڑھتے تو شاید اور بھی اچھا کرتے اور اُن کو اِن پر اضافی محنت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ لیکن ہمارے سماج میں ایک عجیب سوچ ہے کہ لوگ سوشل سائنس یا آرٹس پڑھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور والدین شرم کے مارے لوگوں کو یہ نہیں بتانا چاہتے کہ ان کے بچوں نے ان موضوعات کا انتخاب کیا ہے کیوں کہ اس سے ان کے بچوں کی ذہانت سماج میں مشکوک ہوجائے گی۔ یہ انتہائی نامعقول اور احمقانہ تصور ہے۔ سوشل سائنس، لٹریچر اور آرٹس میں بھی آگے اچھے مواقع میسر ہیں جہاں ذہانت کی بنیاد پر بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کامرس، مینجمنٹ (management) ،قانون (law) اور تعلیم (education) کے شعبوں میں بھی اچھے مواقع موجود ہوتے ہیںجن کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت طرح کے ووکیشنل (vocational) کورسیز وجود میں آچکے ہیں، ان کی طرف بھی بچوں کو بھیجا جاسکتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی کامیاب ہیں، باقی سارے لوگ ناکامیاب۔ سماج میں ہر شعبہ کے ماہرین کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی پڑھ رہے ہیں، وہ کتنی سنجیدگی، شدت اور لگن کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس میں کتنی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ میں تو پوسٹ گریجویشن کے طلباء کو دیکھتا ہوں کہ ان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ برجستہ کسی موضوع پر دو چار صفحات لکھ سکیں الا ماشاء اللہ، کلاس میں کسی موضوع کو پڑھاتے وقت جن بنیادی نکات (basic points) کو پاور پوائنٹ سلائیڈ پر لکھ دیتا ہوں ، وہ بھی امتحان میں اسی طرح لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی وضاحت تک اپنی زبان میں نہیں کرپاتے جب کہ کلاس میں ساری باتیں وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہوتی ہیں۔ اب ایسے طلباء اپنے لئے آگے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

اس لئے تمام والدین سے احقر کی ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ للہ بچوں پر اپنی پسند کا سبجیکٹ اور پروفیشن تھوپ کر ان کی زندگی کو برباد نہ کریں۔ اپنی ذہانت کی بنیاد پر اگر وہ آپ کی منشاء کے مطابق کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بھی ان کو پیشہ ورانہ اطمینان (job satisfaction) کبھی نصیب نہیں ہوتا جو کہ ایک بہت ہی اہم چیز ہے اور زندگی بھر ان کو اس کا افسوس رہتا ہے کہ وہ اپنا شوق پورا نہیں کرسکے۔ اصولی طور پر اساتذہ، والدین یا سرپرستوں کو یہ کرنا چاہیے کہ بچوں کے لئے آگے کیا کیا متبادل (alternatives) موجود ہیں، ان سے متعلق کیا مواقع (opportunities) میسر ہیں اور ان کی حصولیابیوں میں کیا چیلنجز (challenges) درپیش ہیں، یہ ان کے سامنے رکھ دیں اور انہیں خود اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق سبجیکٹ کا انتخاب کرنے دیں۔ طلباء کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیت کو آنکیںاور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے سبجیکٹ اسٹریم کا انتخاب کریں نہ کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی یا مقابلہ آرائی میں۔ یہی بات تمام مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہر آدمی اپنی صلاحیتوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایک مخصوص مقابلہ جاتی امتحان میں شامل ہونے کی بنیادی صلاحیت آپ کے اندر واقعتا موجود ہے یا جو کمی ہے اس کی تلافی آپ کرسکتے ہیں، تب ہی آپ اس کی تیاری میں لگیں ورنہ دوسرا متبادل دیکھیں۔ کوچنگ سینٹرس والے تو آپ کو سبزباغ دکھائیں گے کیوں کہ اس میں ان کے اپنے اقتصادی مفادات ہیں لیکن آپ کو اپنی صلاحیت، اپنی کمزوریوں اور درپیش چیلنجز کو دیکھنا ہے۔ تمام متعلقہ پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر جب آپ اپنے لئے ایک حقیقت پسندانہ اور قابل تسخیر ہدف قائم کرتے ہیں، پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی اور سخت محنت کرتے ہیں تو کامیابی کے امکانات بھی زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، نیز صحت، وقت، محنت اور وسائل کے نقصانات سے بھی آپ بہت حد تک محفوظ ہوجاتے ہیں۔ احقر کی اس تحریر کا مقصد آپ کو ان ہی نقصانات سے بچانا ہے نہ کہ حوصلہ شکنی کرنا۔ امید ہے کہ یہ تحریر والدین، اساتذہ اور طلباء سب کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
[email protected]