جنگِ آزادی اور علمائے کرام مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

حکیم محمدشیراز

اخترُشیرانیؔ کو بھی کیا خوب تمثیل سوجھی تھی: ؎
عشق و آزادی بہار و زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر فدا کروں میں ساری زندگی
مگر آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے
ٹیپو سلطان شہیدؒ، سید احمد شہیدؒ، شاہ اسمٰعیل شہید ؒ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی،حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ، مولانا قاسم نانوتوی ؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہیدؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا ابولکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارؒ، مولانا یحیٰ علیؒ، مولانا جعفر تھانیسریؒ، مولانا فضل حق خیرآبادیؒ اور وہ تمام علمائے کرام بشمول علمائے صادق پور جنھوں نے اپنے خون سے آزادی وطن کے لیے ارض ِ بے رنگ کو گلنار کیا اور وہ علماجن کی نعشیں گورکھپور سے مرادآباد کے درمیان درختوں پر لٹکا دی گئی اور اُن کا نام تاریخ کے صفحات پر رقم نہیں کیا گیا یامورخین کے سہو کا شکار ہو گئے یا نا انصاف لوگوں نے ان کا نام تاریخ کے پنوں سے مٹا دیا، کے تذکرہ کے بغیر جشن آزادی ٔہند نا مکمل ہے۔تاریخ کو بدلنے والے زمین و آسمان کو نہیں بدل سکتے، جنھوں نے ان نفوس قدسیہ کے خون کے چھینٹے چشم خود سے دیکھے ہیں اور تا قیامت بلکہ روز محشر بھی ان کی شہادت و صعوبت کے گواہ ہیں۔
انبالہ کے مقدمہ میں جسے انگریزوں نے’’’وہابیوں ‘‘‘کا سب سے بڑا مقدمہ قرار دیا، مولانا یحییٰ علی سب سے بڑے ملزم تھے۔ چنانچہ انہیں سب سے پہلے ضبطی جائیداد اور پھانسی کی سزا ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی لاش کو لواحقین کو نہیں دیا جائے گا بلکہ جیل میں ہی دفن کیا جائے گا، لیکن بعد میں یہ سزاحبس دوام بہ عبور دریائے شور یعنی جلاوطنی مع عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔مجاہدین کی امداد کے جرم میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور 26 رمضان 1280 ھ یعنی 5 مارچ 1864 ء کو انہیں انبالہ بھیج دیا گیا۔اس وقت اُن کی عمر تقریبا 47 سال تھی اور مجاہدین کے کام کے لیے ان کا فرضی نام ‘’’محی الدین‘‘ تھا۔گرفتاری کے بعد انہیں تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رکھا گیا جو پانچ فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی ہوگی۔ دن میں ایک بار دال روٹی دی جاتی۔ انگریز نے مشاہدہ کیا کہ اس تنگی کہ با وجود مولانا دن بدن فربہ ہو رہے ہیں۔بعض روایات کے مطابق انھیں ایسے پنجروں میں بھی قید کیا گیا، جس میں کیلیں نکلی ہوئی تھیں کہ جہاں نیند کے جھونکے آتے تو وہ کیل چبھتی اور نیند کوسوں دور چلی جاتی۔مگر مولانا کی حالت حسب ذیل شعر کے مترداف تھی ؎
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
جفا نہ ہو تو عشق میں مزہ ہی نہیں
اور ستم کر تو کہ بہت ہی شاد ہوں میں
چنانچہ حضرت بلالؓ کے متبعین اپنے سردار کی اتباع میں ’’سزا و جفا سے بجائے تنگ و لاغر ہونے کے کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے‘‘والے معاملہ سے دو چار رہے۔جب قید و بند کی صعوبتیں بھی مزہ دینے لگیں تو ایسے غلامان محمدؑلاغری کے بجائے فربہی کا ہی شکار ہوتے ہیں۔ ؎
محمد مصطفیٰ ؐکے باغ کے سب پھول ایسے ہیں
جو بن پانی کے تر رہتے ہیںمُرجھایا نہیں کرتے
اس کے بعد سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ جانے پرمولانا جعفر تھانسیری کے ساتھ حوالات میں رہے۔ مولانا جعفر تھانیسری ان کی صحبت کو غنیمت سمجھتے تھے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ میں تو اس امتحان میں صبر و استقلال کر کے شکر ہی شکر کر رہا تھا لیکن مولانا یحییٰ علی کی کیفیت اس سے بھی بڑھ کر تھی۔ وہ اکثر یہ رباعی پڑھا کرتے تھے۔؎
لست ابالی حین اقتل مسلما علی
ای شق کان للہ مصرعی
وذلک فی ذات الالہ وان یشاء
یبارک علی اوصال شلو ممزع
یعنی جب میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ اللہ کی طرف میرا لوٹنا، اگرچہ کسی بھی طرح سے ہو، یہ سب اللہ کی راہ میں ہے، وہ چاہے تو بوسیدہ ہڈیوں اور تمام اعضائے جسم میں برکت و بالیدگی پیدا کر دے۔انھیں، مولانا جعفر تھانیسری اور شیخ محمد شفیع کو 02 مئی 1864 کو68 صفحے پر مشتمل مفصل فیصلے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو مولانا جعفر تھانیسری بہت خوش تھے اور دونوں بزرگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور بغلگیر ہونے لگے۔ انگریز پولیس کپتان نے اس خوشی کی وجہ پوچھی کہ میں نے آپ لوگوں کو شادی کی خبر نہیں دی ہے بلکہ پھانسی کی خبر دی ہے۔ تو کہنے لگے کہ شہادت کی امید پر خوش ہیں، جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے، تم اس کو کیا جانو؟
اس کے بعد ان کی پھانسی کی سزا 24 ِ اگست 1864کو عمر قید اور جلا وطنی میں بدل دیا گیا۔ اور ان کے سر اور داڑھی مونڈ دی گئیں۔ اس پر مولانا یحییٰ علی رحمہ اللہ داڑھی کے کٹے ہوئے بال ہاتھ میں اٹھاتے اور کہتے: ’’افسوس نہ کر تو خدا کی راہ میں پکڑی گئی اور اسی کی طرح کاٹی گئی‘‘۔
یہ مجاہدین فی سبیل اللہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے کہ ان کی جدوجہد اللہ کی راہ میں تھی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی اللہ کی راہ میں، شہادت کی خواہش بھی اللہ کی راہ میں، نہ کہ اقتدار و حکومت کے لیے۔ ان کی جائیدادیں، مال اسباب حتیٰ کہ کتب بھی کوڑیوں کے مول فروخت کی گئیں اور رہائش گاہ اور مطالعہ گاہ کو منہدم کر دیا گیا۔جیل میں انہیں سخت ترین مشقت پر لگایا گیا جو کہ کاغذ کوٹنے کا کام تھا۔ تذکرہ صادقہ کے مطابق مولانا یحییٰ علی رحمہ اللہ رہٹ چلانے کے کام پر لگائے گئے اور تمازت آفتاب میں یہ کام کرتے ہوئے ان کے پیشاب میں خون آنے لگا تھا۔اس کے دو تین دن بعد سپرنٹنڈنٹ نے انہیں سوت کھولنے کے کام پر لگا دیا۔
مولانا یحییٰ علی اور جعفر تھانیسری وغیرہم کو پیدل ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر انبالہ سے لدھیانہ، پھلور، جالندھر اور امرتسر کے راستے لاہور لایا گیا اور کچھ عرصہ سنٹرل جیل لاہور میں رکھا گیا۔اللہ اکبر ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر اتنا لمبا پیدل سفر اور وہ بھی ایک سینتالیس سال کا بوڑھا۔ مولانا یحییٰ کی مصیبت یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ لاہور جیل میں سپرنٹنڈنٹ نے بالخصوص تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک آہنی ڈنڈے کا بھی اضافہ کر دیا، جس کی وجہ سے چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھا محال ہو گیا، حتیٰ کہ سوتے وقت بھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں۔
جزائر انڈمان المعروف بہ کالا پانی میں:اس کے بعد مولانا براستہ ملتان،کوٹری، کراچی، بمبئی سے ہوتے ہوئے11 جنوری 1866 کو جزائر انڈیمان المعروف کالے پانی پہنچ گئے۔وہاں پہنچے تو ساحل پر لوگوں کے ایک جم غفیر نے یہ دیکھ کر کہ مولانا یحییٰ علی اور جعفر تھانیسری آئے ہیں، پانی میں کود کر، ہاتھوں ہاتھ کشتی سے نیچے اتارا۔وہاں بھی مولانا نے قرآن و حدیث کی تعلیم دینا جار ی رکھی۔ دو سال بعد بیمار ہونے کے بعددوران علالت یاد خدا اور صبر و شکر میں مصروف رہتے اور کوئی عیادت کو آتا تو اسے برابر پند و نصیحت فرماتے۔گویا امر بالمعروف کا فریضہ ایک لمحے بھی ترک نہ کیا۔
وفات:مولانا یحییٰ علی کے بھانجے مولانا عبدالرحیم فرماتے ہیں:’’میں تین بجے ہسپتال پہنچا تو مولانا یحییٰ علی کی طبیعت اچھی تھی۔ بہ اطمینان نماز عصر ادا کی۔چار بجے یکایک زبان میں لکنت پیدا ہوئی اور طبیعت بگڑنے لگی۔ ڈاکٹر نے دوا دی جو حلق سے نیچے نہ اُتری۔ ان کے بھائی مولانا احمد اللہ کو بلایا گیا۔ عجیب بات ہے کہ پانی بھی نیچے نہ اترتا تھا البتہ زبان پر ذکر اللہ جاری تھا اور ہوش بجا تھے۔ ‘‘
مولانا عبدالرحیم نے سر زانو پر رکھ لیا اور اسی حالت میں وفات ہو گئی۔ یہ 26 شوال 1284 ھ یعنی 20 فروری 1868 ء تھی۔
تکفین و تدفین:تمام جزائر انڈیمان میں اعلان کیا گیا کہ جو لوگ جنازے میں شریک ہونا چاہیں آ جائیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی آ گئے۔کل شرکا چار پانچ ہزار سے کم نہ تھے۔کئی بار نماز جنازہ پڑھا گیااور انہیں جزیرہ روس میں دفن کیا گیا۔
کمالِ استقامت: مولانا رحمہ اللہ نے مکانات کے انہدام پر اپنی بیوی کو خط میں کچھ اشعار لکھے، جو حسب ذیل ہیں:
دریائے عشقِ خالقِ ہر دو جہاں میں ہم
نام و نشاں دارِ فنا کے ڈبا چکے
کفنی گلے میں ڈال کے، تسمہ کمر کے بیچ
جوگی ہوئے ہیں محرم اسرار کے لیے
اے خدائے من، فدایت جانِ من
جملہ فرزندان و خان و مانِ منی کے حالات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔مولانا جعفر تھانیسری کے حالات بھی دگر گوں نہ تھے۔2 مئی 1864 کو عدالت میں جج نے ان الفاظ کے ساتھ سزا سنائی:
’’مولوی محمد جعفر!تم بہت عقلمند، ذی علم اور قانون دان، اپنے شہر کے نمبدار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقلمندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا۔ تمہارے ذریعے سے آدمی اور روپیہ سرکار کے دشمنوں کو جاتا تھا۔ تم نے سوائے انکار بحث کچھ حیلتاً بھی خیرخواہی سرکار کا دم نہیں بھرا اور باوجود فہمائش کے اس کے ثابت کرانے میں کچھ کوشش نہ کی۔ اس واسطے تم کو پھانسی دی جاوے گی۔ میں تم کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔‘‘
مولوی جعفر نے کہا:’’جان لینا اور دینا خدا کا کام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ رب العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کر دے۔‘‘
مولوی جعفر کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور جج اگلے چند روز میں دنیا سے چلا گیا جبکہ مولوی جعفر طویل قید کاٹ کر رہا ہوئے اور طبعی موت مرے۔
قید اور جلا وطنی 16: ستمبر 1864 کو ڈپٹی کمشنر انبالہ نے تنسیخ پھانسی کا چیف کورٹ کا حکم سنایا اور بتایا کہ پھانسی سزائے دائم الحبس بعبور دریائے شور سے بدل دی گئی ہے۔جزائر انڈمان میں جلاوطنی کا تمام عرصہ گزارا۔فروری 1965 تک انبالہ جیل میں رکھا گیا اور پھر سینٹرل جیل لاہور میں منتقل کر دیا گیا۔ اخیر اکتوبر 1865 ملتان روانہ کر دیا گیا۔ دو روز بعد کوٹلی سے ہوتے ہوئے کراچی جیل پہنچا دیا گیا۔ ایک ہفتہ کراچی میں ٹھہرا کر انہیں بمبئی جیل پہنچا دیا گیا۔ 8 دسمبر 1865 میں بمبئی جیل سے جزائر انڈمان المعروف کالا پانی کی طرف بھیج دیا گیا۔ انڈمان پہنچنے کے چند ماہ بعد کوشش کی کہ اپنی بیوی کو وہیں بلا لیں مگر اس امر میں قانون حائل ہوا۔ ایک نوآمدہ کشمیری عورت سے شادی کر لی جو اپریل 1868 میں یہ بیگم بھی خالق حقیقی سے جا ملی۔
رہائی : 30دسمبر 1881 کو رہائی کا فرمان آیا اور 22 جنوری 1883 میں حقیقی رہائی عمل میں آئی۔ ہندوستان واپس پہنچنے پر کپتان ٹمپل نے ریاست ارنولی میں نوکر کرا دیا اور باقی زندگی ایک آزاد شخص کی حیثیت سے گزاری۔
جنگ آزادی میں علمائے صادق پور کا رول:
مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ اپنی کتاب تزکیہ و احسان میں رقم طراز ہیں:’’ہندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کی مجاہدانہ جد و جہد اور قربانیاں اگر ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور اہل صادق پور کی جد جہد اور قربانیاں دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائیں تو شاید یہی پلڑا بھاری رہے۔‘‘
اگر ہرہرمجاہد آزادی کی داستان قربانی بیان کی جائے تو یہ مضمون کافی طویل ہو جائے گا۔سطور بالا کا لب لباب یہ ہے کہ اگر آج وہ مجاہدین زندہ ہوتے اورہندوستان کے موجودہ حالات دیکھتے تو یہی کہتے کہ ہماری قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔ اس لیے کہ جس مقصد کے لیے ہم نے قربانیاں دی تھیں وہ آج فوت ہو رہا ہے۔گنگا جمنی تہذیب، مذہبی رواداری، خدمت و انسانیت، ہمدردی و غمخواری، محنت و دیانت داری کی جگہ تعصب، فرقہ وارانہ فسادات، درندگی، بد دیانتی و رشوت ستانی، قتل و غارت گری اور ہجومی تشدد نے لے لی ہے۔وا حسرتا و اویلاہ و یا اسفیٰ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلاف کی سیرت سے ان کی صفات کی خوشہ چینی کی جائے ان کی قربانیوں کو یاد کر کے ان کی سیرت کو اپنایا جائے۔جن مقاصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے انھیں پھر زندہ کیا جائے۔تعصب اور نفرتوں کی عینک اتار کر محبت و اخوت اور بھائی چارگی کو عام کیا جائے۔؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
[email protected]>