جنس کی تبدیلی اور جنڈر ڈسپھوریا فکرو فہم

سیدہ حمرا اندرابی

رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،یعنی اسے بولنے کی صلاحیت اور فہم و فراست سے نواز کر باقی تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی۔حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کرنے کے بعد انہیں کے وجود سے انکی زوجہ حضرت حواء علیہا السلام کو بھی پیدا کیا تاکہ دونوں ایک دوسرے سے سکون حاصل کرسکیں اور ساتھ ساتھ نسل انسانی بھی پروان چڑھتی رہے،گویا رب کائنات نے اس اصول کا تعین کردیا کہ اب انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے مرد اور عورت کی ضرورت ہوگی اور اس طرح قدرتی قانون کے تحت انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔
اس قانون اور اصول کو تاریخ دنیا میں سب سے پہلے جس نے بگاڑنے کی کوشش کی وہ بدبخت قوم ’’قوم سدوم‘‘ یا’’قوم لوط‘‘ تھی،جنہیں اس جرم(homosexuality) کی پاداش میں اللّٰہ نے نیست و نابود کردیا۔وہ قوم تباہ و برباد ہوگئی اور آگے کی اُمتوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئی۔قرآن کریم میں بھی اس کاذکر آیا ہے اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے لوگوں کے لیے سخت سزا یا وعید سنائی ہے۔ پچھلےکچھ سالوں میں یہ بد فعلی دنیا میں پھر سے مغربی ممالک سے نمودار ہوئی اور اب باقی ممالک میں بھی اپنے واضح اثرات مرتب کرتی نظر آرہی ہے۔بر صغیر میں بھی اس نے اپنی جڑیں تیزی سے پھیلانا شروع کر دی ہے،چونکہ دنیا کا یہ حصہ مغربی تہذیب کا دلدادہ اور انکا ذہنی غلام ہے تو انہیں اس خباثت کو قبول کرنے اور اس کو اپنا بنیادی حق تصور کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ کھلم کھلا اس بیہودگی کا اظہار کرنے کے بجائے اکثر لوگ اب “gender dysphoria” کا سہارا لیتے نظر آرہے ہیں۔جہاں اس بات کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ہم اپنے پیدائشی جنس یعنی، biological sex میں خود کو قید محسوس کرتے ہیں،بے آرامی اور گٹھن ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر اس شخص کو جو اس طرح کے احساسات رکھتا ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ قانون کی طرف سے اجازت دی جائے کہ وہ اپنا پیدائشی جنس بذریعہ آپریشن تبدیل کر سکے۔‘‘ اِنا للّٰہ واِنا الیہ راجعون۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کے خرافات کا مطالبہ کرنے والوں میں مسلمان بھی شامل ہیں،جنکے ذہنوں کو شیطان نے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور وہ پوری طرح سے حق بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اصل میں قرآن پاک سے دوری اور اسکی تعلیمات کو نظر انداز کرنا ہی اس امت کی جاہلیت اور زوال کا سبب ہے۔قرآن پاک کی سورہ النساء میں ابلیس کے اس وعدے کا ذکر آیا ہے جو اس نے اللّٰہ سے کیا تھا کہ: وَلَاُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا۔’’میں انہیں بہکاوں گا،غلط آرزوؤں میں الجھاوں گا،انہیں حکم دوں گا کہ جانوروں کے کان پھاڑیں اور حکم دوں گا کہ خدای ساخت میں رد و بدل کریں،اور جس نے شیطان کو اللہ کے بجائےاپنا ولی بنایا وہ نقصان میں پڑ گیا۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے واضع ہوا کہ ’’جنسی تبدیلی‘‘ اور ’’جنڈر ڈسپھوریا‘‘جیسے وسوسے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔اہل علم و دانش کے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہے۔اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو شیطانی وسوسوں سے بچائے رکھے اور بگڑے لوگوں کی ہدایت فرمائے۔آمین۔
[email protected]