جموں و کشمیرترقی کی راہ پر گامزن نئے اَراضی قوانین مجموعی ترقی یقینی بنانے کاتاریخی قدم

سرینگر//جموں وکشمیر کے لوگوں نے نئے اَراضی قوانین کو جموںوکشمیرکی دیرپا ترقی اور پیش رفت کے لئے اہم قدم کے طور پر سراہا ہے۔زراعت اور اِس سے منسلک شعبوں کی اِصلاح کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں کی مجموعی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کا ایک تاریخی اقدام ہے۔جموںوکشمیر حکومت ایک جدید ، مؤثر ،شفاف اور شہریوں کے لئے دوستانہ یوٹی بنانے کی سمت میں مسلسل کام کر رہی ہے جو زمین کی حفاظت کرتا ہے ۔نئے زمینی قوانین جنہوں نے پرانے قوانین کی جگہ لی جو سابقہ ریاست جموںوکشمیر میں موجود تھے،زرعی شعبے کو بہتر بنانے ، تیزی سے صنعت کاری کو فروغ دینے ، اِقتصادی ترقی میں مدد اور ملازمتیں پیدا کرنے میں بھی مدد کریں گے۔چار بڑے ریاستی قوانین میں کلیدی ترامیم کی گئیں جو سابقہ ریاست میں زمین کی ملکیت ، فروخت اور خریداری کو کنٹرول کرتی تھیں۔یہ قوانین جے اینڈ کے ڈیولپمنٹ ایکٹ 1970، جے اینڈ کے لینڈر یونیو ایکٹ 1996، زرعی اِصلاحات ایکٹ 1976 اور جے اینڈ کے لینڈ گرانٹس ایکٹ 1960 ہیں۔صنعتی مقاصد کے لئے اَراضی کا تعین ان نوجوانوں کے لئے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرے گا جو ہمیشہ سے جموںوکشمیر میں صنعتی اِنقلاب کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ اِنہیں روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔نئے اَراضی قانون کے مطابق زرعی زمین صرف ایک کسان کو فروخت کی جاسکتی ہے اور اسے ایسے شخص کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو جموںوکشمیر یوٹی میں ذاتی طور پر زمین کا شت کرتاہے ۔ ’’ زرعی زمین‘‘ کی اِصطلاح کو واضح طور پر نہ صرف زراعت بلکہ باغبانی اور اِس سے منسلک زرعی سرگرمیوں کو بھی شامل کرنے کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ وسیع تعریف میں نہ صرف باغبانی بلکہ پولٹری ، اینمل ہسبنڈری اور دیگر شامل ہیں۔منسوخ شدہ قوانین کی ترقی پسند دفعات کو ترمیم شدہ لینڈ ریونیو ایکٹ میں شامل کر کے برقرار رکھا گیا ہے اور موجودہ قوانین کو جدید بنانے کے لئے نئی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
گھریلو تشدد پر روک کب لگے گی ؟
جموںوکشمیر میں گھریلو تشدد کے معاملات جس تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں،اُس نے اس سماج کے بد نما چہرے کو عیاںکرکے رکھ دیا ہے۔ اخباری رپورٹوںکے مطابق سرینگر کے صدر ہسپتال میں ہفتے میں اوسطاً ایک خاتون کو داخل کیاجاتا ہے جو گھریلو تشدد کی نذر ہوئی ہوتی ہے۔ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر خواتین گھریلو تشدد کی وجہ سے تنگ آکر اپنے آپ کو آگ سے جھلسا دیتی ہیں اور اس وقت بھی ہسپتال کے برن وارڈ میں کئی خواتین جھلس جانے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ماہرین سماجیات کی جانب سے حال میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق کشمیر میں40فیصد سے زائد خواتین گھریلو تشدد کی شکار ہیں۔سروے کے مطابق گھریلو تشدد کے بیشتر معاملات میں وجوہات دہیج ،سسرال والوں کی مداخلت ،غلط فہمی ،شوہر کی طرف سے زیادتیاں، بچیوں کو جنم دینا وغیرہ شامل ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سالانہ خواتین کی جانب سے گھریلو تشدد سے متعلق 1600سے1700شکایات متعلقہ اداروں میں درج کی جاتی ہیں اور ان میں سے بیشتر شکایات کشمیر صوبہ سے ہوتی ہیں۔مجموعی طور پر تین برسوں میں خواتین پر گھریلو تشدد کے1632کیس درج ہوئے ہیں جبکہ خود کشی کیلئے خواتین کو مجبور کرنے کے الزام میں462کیسوںمیں 361افراد کو پابند سلاسل بنایاگیا۔شوہروں اور اس کے رشتہ داروں کی جانب سے بیویوں پر تشدد کے 1153واقعات درج ہوئے جبکہ جہیز مخالف قانون کے تحت دو کیسوں میں3افراد کو دھر لیاگیا۔صرف گزشتہ دو برسوں کے دوران ہی مختلف پولیس تھانوں میںعصمت ریزی اور گھریلو تشدد کے1422کیس درج کئے گئے ہیں جن میں 595کیس عصمت ریزی جبکہ827کیس گھریلو تشدد سے متعلق تھے۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین برسوں میں جہاں عصمت ریزی کے1039کیس درج ہوئے وہیں شوہروں کی جانب سے زیادتیوں کے1300،اغواکاری کے2879،چھیڑ چھاڑ کے4142،فقرے کسنے کے876،جہیزی اموات کے18جبکہ اقدام خودکشی کے527معاملات رونما ہوئے ہیں۔اگر چہ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران خواتین کافی حد تک بااختیار ہوئیں اور وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہوئیں تاہم اس کے نتیجہ میں شادیوں میں سسرالیوں کی جانب سے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا۔جموںو کشمیر میں اگر چہ آگہی آئی تاہم خواتین پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بن گئیں اور انہیں ہر وقت مردوں کی جانب سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔غور طلب با ت یہ ہے کہ جموںو کشمیر میں خواتین کی جانب سے خود سوزیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہوگا جب خواتین کی جانب سے خود کشی کے معاملات سامنے نہ آتے ہوں۔جموںو کشمیر میں روزانہ اوسطاً دو خواتین خود کشی کرلیتی ہیں اور اگر چہ میں نصف تعداد غیر شادی شدہ لڑکیوں کی ہوتی ہے تاہم نصف تعداد شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے جو گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔متمدن معاشروں میں اس طرح کے رجحان کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم معاشرے میں اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ جموںو کشمیر کا معاشرتی نظام ایسا ہے کہ یہاں خواتین گھریلو تشدد برداشت کرلیتی ہیں لیکن کسی سے کہہ نہیں پاتی اور جب و ہ حد سے گزر جاتا ہے تو وہ خود کشی کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرلیتی ہیں۔یہ رجحان اس معاشرے کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔خواتین کے وجود سے ہی تصویر کائنات میں رنگ ہے اور یہ خواتین ہی ہیں جو مردوں کو جنم دیتی ہیں جبکہ اسلام میں خواتین کا مقام بہت بلند ہے لیکن اسکے باوجود مسلم معاشرہ میں خواتین کے زیادتیوں کا یہ عالم افسوسناک ہے ۔ مادہ پرستی ،شکم پرستی اور حرس نے اس معاشرے کو اس قدر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ اب اس کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے اور اجتماعیت کا تصور فوت ہوچکا ہے ۔بیٹی بوجھ بن چکی ہے اور بہو گھر کی شان کی بجائے بحران بن چکی ہے۔سماجی خرافات کی قربان گاہ پر لڑکیوں کوبھینٹ چڑھنا پڑتا ہے اور سماج ہے کہ اُف تک نہیں کرتا ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا ٹھیک بات ہے لیکن اس سے قبل ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم سے تو کوئی کوتا ہی مت ہورہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے جرائم کے انسداد او ر روک تھام کیلئے ذمہ دار ہیں تاہم پولیس اصلاح معاشرہ کا کام نہیں کرسکتی ہے اور اگرہمیں ایک کامل اور نیک معاشرے کی تشکیل کرنی ہے تو اس کیلئے ہمیں ہی پہل کرنا ہوگی۔انسان بننے کیلئے اخلاقی اور دینی تعلیم لازمی ہے ۔اخلاق اور دین کے زیور سے جب بچہ آراستہ ہو تو قوم کی بنیاد بھی مضبوط ہوسکتی ہے اور ایک کامل معاشرے کاقیام یقینی بنایا جاسکتا ہے۔اگر ہمیں خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو اس کیلئے ایسا ماحول پیدا کرنیکی ضرورت ہے ۔خواتین کی عظمت منوانے کیلئے لازمی ہے کہ مردوں کو اخلاقی و دینی تعلیم سے روشناس کرایا جائے ۔حکومتی سطح پر بھی لازم ہے کہ سکولوںمیں اخلاقی و دینی تعلیم کی نظم کیاجائے اور خواتین کے تحفظ کا کوئی ایسا نظام وضع کیاجائے کہ جو خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو ،اس کو ایسی عبربتاک سزا ملے کہ وہ دوسروں کیلئے نشان عبرت بن جائے ۔جب عورت محفوظ ہوگی اور عورت اپنے مقام کو پالے گی تو سماج کی رنگینی بحال ہوگی اور کشمیری سماج اپنی شان رفتہ بحال کرپائے گا ۔